مسلمانوں میں۷۳ فرقوں والی حدیث سے سبھی واقف ہیں۔اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے جسکا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی ہو بہو ہر وہ برائی ہوگی جو یہود و نصاریٰ میں ہوگی آپ ﷺ نے کچھ ایسافرمایا کہ یہود کے ۷۲ فرقے ہونگے تو میری امّت میں ۷۳ فرقے ہونگے جو سب جہنّمی ہونگے سوائے ایک فرقے کے، صحابہ کے استفسار پر کہ وہ فرقہ کون سا ہوگاتو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا فرقہ(مفہوم)۔ کم و بیش ان جیسے الفاظ کی کئی احادیث کتابوں میں ملتی ہیں۔
بچپن سے سنتے آئے اس حدیث پر کچھ غور کیا تو خیال آیا کہ کیا ایک عالمِ دین نہ ہوتے ہوئے بھی ہم اسکا آسان سا مطلب نہیں نکال سکتے؟
آیئے آپ بھی غور کریں۔آنحضرت ﷺ سے زیادہ علم والا اور حکمت والا نہ کوئی ہوا اور نہ ہوگا۔ آپ ؐ کے کچھ فرمان عمیق گہرائی لیئے ہوتے ہیں۔ یہ حدیثِ مبارکہ بذاتِ خود ایک مکمّل بیان ہے جو بلاغت سے معمور ہے۔ یہ حدیث عام مسلمانوں کے لیئے نہ صرف شفاعت کی بشارت ہے بلکہ اتّحادِ بین المسلمین کی داعی بھی ہے۔ یہ حدیث ہر انتہا پسندی، شدّت پسندی اور فرقہ پرستی کو رد کرکے اسکے بدترین انجام کو اُجاگر کرتی ہے۔
رسو ل اللہ ؐ کے الفاظ کی تشریح عام فہمی یا کامن سینس سے کرنے میں کوئی شرعئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے اسی لیئے یہاں پر ایک سادہ سا نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے جو اس حدیث کیے حوالے سے ذاتی رائے ہی ہے۔
عموماً مذکورہ حدیث کے حوالے سے مختلف فرقو ں کا باہم تقابل ایک اکائی کے حوالے سے کیا جاتاہے اور ظاہر ہے کہ اس پیرائے میں موازنے کا منطقی نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ موجودہ فرقوں میں سے کوئی ایک فرقہ ہی درست ہو گا اور اسی لیئے اپنی انا کے بموجب ہر فرقہ اور اسکے علمائفطری طور پراپنے آپ ہی کو برحق اور باقی فرقوں کو جہنّمی گردانتے ہیں ۔ اسی بنا پر بہت سے مسلمان گو مگو کی کیفیت میں بھی رہتے ہیں۔
اس حدیث کو بغیر غور کیئے لفظاً قبول کرنے سے تو لگے گا کہ مسلمان کثیر تعداد میں گمراہ ہیں لیکن سوچنا چاہیئے کہ کیا حقیقتاً ایسا ہی ہے؟
اس ضمن میں عام فہمی commonsense چند اہم نکات کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ بات عقل قبول نہیں کرتی کہ تمام فرقے جن میں بڑے دیندار اصحاب نظر آتے ہیں وہ جہنّمی ہونگے اور صرف ایک فرقہ اور مسلک والے ہی فلاح یافتہ ہیں۔ تمام ہی فرقوں اور مسالک میں کثیر تعداد ان مسلمانوں کی ہے جو دیندار زندگی گزارتے ہیں جنکا جہنّمی ہونا خلافِ عدل ہے۔
یہ بھی عام رائے ہے کہ شیطان خواب میں ہر روپ دھار کر آسکتا ہے سوائے اللہ کے آخری نبیؐ کے ، یہ بات مدِّ نظر رہے کہ رسول اللہؐ نے کچھ اس طرح بھی فرمایا کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا توگویا اس نے مجھے دیکھا۔ آنحضرت ؐ کا دیدار ایک بڑی سعادت ہے جو اللہ اپنے خوش نصیب بندوں کو عطا کرتا ہے۔ رسول اللہ ؐ کا دیدار امّت میں چنیدہ خاص و عام کو ہوتا رہتا ہے اور اس میں کسی ایک فرقے یا مسلک کی قید نہیں ہے۔ کسی جہنّمی کو یہ اعزاز کیونکر مل سکتا ہے۔
ظاہریہی ہوتا ہے کہ بات کچھ اور ہے جس کو فرقوں کے تنگ پیرائے سے ہٹ کر ایک بہت وسیع اور بڑے کینوس پر د یکھنا اورسمجھنا چاہئے ۔
تو پھر اس حدیث میں کیا اشارہ ہے جو سمجھنے کی ضرورت ہے؟
ایک نکتہ یہ سامنے رہے کہ آپ ؐ کے فرمان کے مطابق مسلم امّت ہو بہو یہود کے نقشِ قدم پر چلے گی یعنی ایسی مشابہت جیسے کہ دو جوتے بالکل یکساں ہوتے ہیں(مفہوم)۔ گویا اگر یہود کے ۷۲ فرقے ہیں تو مسلمانوں میں بھی ۷۲ فرقے ہونے چاہئیں مگریہاں آپ ؐ نے فرمایا کہ یہودیوں کے ۷۲ فرقے ہونگے تو مسلمانوں میں ۷۳ ہونگے! یہی اہم نکتہ ہے جو بہت بلاغت لیئے ہوئے ہے۔ اب ۷۲ کا لفظ ایک تمثیلی پیرائے میں ہے یا حقیقتاً ایسا نہیں ہے تو بھی قطع نظر اسکے ہر دو صورتوں میں ۷۳واں فرقے کا اشارہ غالباً ایک الگ معنوں میں استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔ یعنی مسلمانوں میں بظاہراتنے ہی فرقے ہونگے جتنے کہ یہودیوں میں، لیکن حقیقتاً ایک فرقہ عام ڈگر سے ہٹ کر اور غیر مرئی ہوگا۔ اور یہی دراصل آنحضرتؐ کی وہ کثیر اُمّت ہے جسکی شفاعت کی جائے گی۔ آنحضرت ؐ کے مذکورہ فرقے میں اللہ اور رسول ؐ سے سچّی عقیدت اور محبت رکھنے والے تمام مسلمان ہیں جو مختلف فرقوں میں تو ہیں لیکن وہ انتہا پسند نہیں بلکہ دوسرے مسلمان فرقوں کے ایمان عقائد اور عبادات کے بارے میں میانہ رو ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے کام سے کام رکھتے اور دوسروں کے عقائد سے لاتعلّق رہتے ہیں۔ وہ خدائی فوجدار نہیں بنتے ہیں۔
توملزم کون؟
ہر فرقے میں انتہا پسندانہ مزاج کے لیڈر یا علماء موجود ہوتے ہیں جو بہت جارحانہ انداز میں دوسروں کو مطعون کرتے، نفرت کی آبیاری کرتے اور مختلف القابات دیکر دوسرے فرقوں کو جہنّمی قرار دیتے رہتے ہیں۔ یہ طبقہ دوسروں کے بارے میں مستقل بغض و عناد لیئے رہتا ہے ۔ سازشی ذہنیت کے حامل یہ شدّت پسند علماء اور انکے مقلّدین عام لوگوں کوبھڑکا کر اپنے افکار کے زیرِ اثر لے آتے ہیں اور عام مسلمان بہک کرسادہ لوحی میں انکی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ ہر فرقے کے شدّت پسند اور محاذآرائی پر کمر بستہ افراد جو قلیل تعداد میں ہوتے ہیں وہی "فرقے "کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ ان مخصوص ذہنیت والوں کے علاوہ ہر فرقے میں بہت سے سادہ مسلمان ہوتے ہیں جو خلوص سے اللہ کاور رسول ؐ پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ سادہ لوح لوگ فرقہ واریت اور شدّت پسندی میں متحرّک نہیں ہوتے اور نہ ہی دوسروں سے کوئی عناد رکھتے ہیں بلکہ آپس میں معاشرتی تعلقّات رکھتے ہیں ،یہ بے نمازی ہوتے ہوئے بھی قلب میں خالص ایمان کی چنگاری رکھتے ہیں۔
میری ناقص رائے میں:
رسول اللہ ؐ کا فرقہ دراصل مثبت و متوازن سوچ کے حامل یہی مسلمان ہیں جو صاف دل ہوتے ہیںیہ ہر فرقے میں ہیں ، انکا ایمان خالص ہوتا ہے ۔۔۔ جس کا علم صرف اللہ کو ہوتاہے۔
اس حدیث کی ان معنوں میں تشریح اور تشہیر سے فرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ انتہا پسندوں کی حمایت میں نہ صرف کمی آسکتی ہے بلکہ شدّت پسندوں کو معاشرے میں تنہا کیا جاسکتا ہے۔ عام مسلمان بے یقینی کی فضا سے چھٹکارا پا سکتے ہیں کہ وہ نبیؐ کے فرقے میں ہیں یا نہیں۔
ایک مسلمان کو یہ جاننے کے لیئے کہ میں نبیؐکے فرقے میں ہوں یا نہیں کسی مفتی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے ضمیر سے گواہی لے کہ کسی دوسرے کلمہ گو کے لیئے اس کے دل میں کتنی عداوت و بغض یا اُنسیت ہے!
اس وقت مسلمانوں کے مختلف گروہ آپس میں ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں خود کو صراط مستقیم پر سمجھ کر مسلمانوں کا کُشت و خون کر رہے ہیں سب سے زیادہ خطرے سے وہی کھیل رہے ہیں کیونکہ یہ علانیہ ایک دوسرے کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔اس ضمن میں ایک اہم بات یہ مدّنظررہے کہ جب ایک عمومی معیار بتادیا گیا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے تو کسی بھی مسلمان کے ایمان کی نسبت اسکے اخلاص کا علم کسی انسان کو کیسے ہوسکتا ہے یہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک مخفی عنصر ہے۔
ہاں مگرآپس کا علمی ، تحقیقی تبادلہ اور مثبت تنقید وہیں تک مناسب ہے جو نفرت پیدا کرکے ملّت اور امّت کو کمزور نہ کرے۔
لہذٰااپنے ایمان کی حفاظت میں خود غرض بن جائیں۔ ہرکلمہ گو کو بھائی جانیں۔اسکے اعمال کے جج نہ بنیں۔
خواہ آپ کسی فرقے یا مسلک سے ہو، اپنا فیصلہ بھی آپ خود کرلیں۔
بس کشادہ دل ہوکر محبت کے پیامبر بن جائیں اور۔۔رسول اللہ ﷺ ؐ کے فرقے سے ناطہ جوڑ لیں۔