ایک جائزہ کے مطابق پاکستان 90 فیصد گائنالوجسٹس محض روپیہ کمانے کے چکر میں اچھے بھلے نارمل ڈلیوری کیسز کوسیزیرین میںبدل دیتی ہیں، آپ ذرا تحقیق کرلیجئے کہ دو، تین سیزیرین کرانے کے بعد خاتون ساری عمر کس اذیت سے گزارتی ہے۔
ایک دوسری رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف آزاد کشمیر میں 98 فیصد گائناکالوجسٹ مریضوں کومختلف بہانوںسے سیزیرین پر مجبور کردیتی ہیں۔ یہاں نارمل ڈیلوری کا 10 سے 15 ہزار ٹوٹل خرچہ آتا ہے جب کہ آپریشن 50 سے 60 تک بنا دیتے ہیں۔ یہ آزادکشمیر کا معاملہ ہے،
پاکستان کے باقی حصوں میں ریٹس الگ ہیں۔ ایک جائزہ کے مطابق ان کلینکس میں عام طور سے ایک سیزیرین سیکشن یعنی آپریشن سے بچوں کی پیدائش پر کم سے کم 30 ہزار روپے اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ روپے کی لاگت آتی ہے۔
یاد رہے کہ آپریشن کے ذریعے پیدائش کو عالمی ادارۂ صحت نے دنیا بھر میں اس کے نقصان دہ اثرات کے باعث ناپسندیدہ طریقہ قرار دیا گیا ہے۔
لیکن پاکستان کے شہروں قدم قدم پر قائم پرائیوٹ ہسپتال اور میٹرنٹی ہومز بچہ پیدا کرنے کے لیے ’تکلیف کے بغیر آپریشن‘ کا حل تجویز کرتے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ملک کے معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ایک منافع بخش کاروبار بھی ہے اور کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز جان بوجھ کر وقت بچانے اور پیسہ کمانے کی غرض سے اب سی سیکشن کو ہی فوقیت دیتے ہیں۔