سوشل میڈیا پر ، ریاست کے خلاف جھوٹی خبروں کی بنیاد پر جو مہم چلائی جاتی ہے، اس کے بارے میں بین الاقوامی قانون کیا کہتا ہے؟
جب ریاست کے خلاف ، جھوٹ پر مبنی ایک طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے تو بین الاقوامی قانون اس کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور اس سے نبٹنے کے لیے کہاں اور کتنی گنجائش دیتا ہے؟
اس مطالعے کی شان نزول بالکل واضح ہے۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کو بطور ریاست ٹارگٹ کیا جا چکا ہے۔ا س کی ایک تازہ مثال وہ ویڈیو ہے جس میں ایک شخص کہتا ہے کہ اس نے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں قتل عام کو دیکھ کر فوج سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ ویڈیو لاکھوں میں شیئر ہوئی اور چند گھنٹوں بعد ایک اور ویڈیو شیئر ہوئی جس میں بتایا گیا کہ اس ـ ’ فوجی‘ کی ویڈیو سامنے آنے پر پاکستان کی فورسز نے اسے قتل کر دیا ہے۔ ان ویڈیوز کی بنیاد پر ایک طوفان کھڑا ہوا ۔ بعد میں یہ ثابت ہو گیا کہ یہ ویڈیو بالکل جعلی تھی اور آرٹیفیشل انٹلی جنس کی مدد سے تیار کی گئی تھی۔
اس جعل سازی کی تمام تفصیل اپنی ساری فنی جزئیات کے ساتھ سامنے آ چکی ہیں۔ لیکن اس طرح کے معاملات میں ہوتا ہے کہ جب تک سچ سامنے آتا ہے جھوٹ معاشرے میں غارت گری کر چکا ہوتا ہے۔
یہ واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں۔ ایسی مہم تسلسل سے چلائی جا رہی ہے جس میں پاکستان کے قیام سے لے کر اس کی بقا تک ، ہر چیز کو نشانے پر لیا جا چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ریاست دشمن ابلاغی مہم سے کیسے نبٹا جائے ا ور نبٹنے کے مرحلے سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بین الاقوامی قانون اس واردات کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔
سوشل میڈیا نسبتاً ایک نئی چیز ہے اور اس پر ہمیں باقاعدہ قانون سازی کم ہی ملتی ہے تاہم اس حوالے سے بین الاقوامی قانون کی جورسپروڈنس کے ابتدائی خدوخال بہت واضح ہیں۔ انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ایک بنیادی دستاویز ہے جسے Tallinn Manual on the International Law Applicable to Cyber Warfare کہا جاتا ہے۔ اختصار کے ساتھ اس کے لیے Tallinn Manual کا نام مستعمل ہے۔ اس میں سوشل میڈیا اور ریاست کے تعلق کے حوالے سے چند بنیادی اصول طے کر دیئے گئے ہیں۔
یہ یوں سمجھیے کہ نیٹو اور امریکہ کی سرپرستی میں تیار ہوا ، اس کی تیاری میں مغربی دنیا کے بین الاقوامی قانون کے جید ماہرین نے شرکت کی ، اس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر امریکہ کے نیول وار کالج کے سربراہ تھے۔ اسے کیمرج یونیورسٹی پریس سے شائع کیا گیا۔اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافے اور بہتری ہوتی جا رہی ہے ۔اگر چہ یہ ایک نان بائنڈنگ دستاویز ہے تاہم اس کی اہمیت اور معنویت مسلمہ ہے۔
اس Tallinn Manual میں چار باتیں کی گئی ہیں ۔ جو بہت بنیادی اہمیت کی حامل ہیں:
پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ کسی بھی ملک کی حاکمیت اعلی اور خود مختاری کا تعلق صرف اس کی جغرافیائی حدود تک نہیں ہے بلکہ یہ تصور Cyberspace تک پھیلا ہوا۔ یعنی کسی بھی خود مختاری کا تصور صرف یہ نہیں کہ اس کی جغرافیائی حدود کو پامال نہ کیا جائے بلکہ اس تصور کا اطلاق سوشل میڈیا وغیرہ کی دنیامیں بھی ہو گا۔
دوسری بات یہ کہی گئی کہ کسی ملک کے خلاف سائبر حملہ کیا جاتا ہے یا سوشل میڈیا پر اس پر انفارمیشن وار مسلط کی جاتی ہے ، یا اس کی سالمیت کے دشمن عناصر کی مدد کی جاتی ہے تو یہ ایسے ہی تصور ہو گا جیسے اس ملک کے خلاف جارحیت ہوئی ہے۔اور اس پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی ذیلی دفعہ 4 کا اطلاق ہو گا۔
تیسری بات یہ کی گئی کہ اس قسم کی جارحیت کو باقاعدہ فوجی ہدف سمجھا جائے گا۔ یہ بہت ذو معنی اصطلاح ہے۔ فوجی ہدف وہ ہوتا ہے جسے کوئی بھی ملک ٹارگٹ کر سکتا ہے ا ور اسے نیست و نابود کر سکتا ہے۔ عام شہریوں اور فوجی ہدف کو ہمیشہ سے انٹر نیشنل لا میں الگ الگ رکھا گیا ہے۔ اور انٹر نیشنل لا میں جس چیز کو فوجی ہدف قرار دے دیا جائے ، اس کو طاقت کے استعمال سے کچل دینا ایک جائز جنگی اقدام تصور کیا جاتا ہے۔
چوتھی بات جو اس Tallinn Manual میں کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر دشمن کی باقاعدہ افواج یا ان سے منسلک لوگ کسی دوسرے ملک کے خلاف سائبر جنگ لڑ رہے ہوں تو ان کا معاملہ تو بہت واضح ہے لیکن اگر وہ سوشل میڈیا یا میڈیا ہر عام لوگوں ذریعے یہ کام کروا رہے ہوں ، بھلے انہیں پیسے دے کر ان کی خدمات لی ہوں یا وہ لوگ ویسے ہی ان کے لیے استعمال ہوئے جا رہے ہوں تو پھر کیا ہوگا۔ ایسے لوگوں کی حیثیت کیا ہو گی جو کسی دشمن فوج کا حصہ تو نہیں تو لیکن وہ سوشل میڈیا پر سائبر وار کے مرتکب ہو رہے ہوں۔ Tallinn Manual کے مطابق ان عام لوگوں کو ’ دشمن فوج کا بے قاعدہ حصہ‘ تصور کیا جائے گا۔ ان کے لیے Irregular member of armed forces کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے یہ وہ قاعدے اور اصول ہیں جو مغربی دنیا کے جید ماہرین قانون نے بیٹھ کر و ضع کیے ہیں۔ پاکستان پر اس وقت سائبرو ار مسلط کی جا چکی ہے اور اس حقیقت کا اعتراف آکسفرڈ یونیورسٹی جیسے اداروں کی ریسرچ سٹڈیز میں بھی کیا جا رہا ہے۔( جس کا حوالہ تفصیل کے ساتھ ان کالموں میں دیا جا چکا ہے)۔اس لیے یہ ضروری ہو چکا ہے کہ پاکستان اس سائبر وار کے حوالے سے اپنی پالیسی انہی خطوط کی بنیاد پر وضع کرے جو Tallinn Manual میں طے پا چکے ہیں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہو گا کہ حکومت پر تنقید اور ریاست پر مسلط سائبر وار میں فرق کیسے کیا جا سکے گا؟
یہ ایک نازک سوال ہے تاہم اس کا جواب آئین پاکستا ن کے آرٹیکل 19 میں خاصی حد تک مووجود ہے۔ اسی آرٹیکل میں جہاں یہ کہا گیا ہے کہ شہریوں کو آزادی رائے کا حق ہو گا وہیں یہ بھی بتا گیا ہے کہ اس حق پر کون کون سی پابندیاں ہوں گی اور کہاں کہاں جا کر یہ حق ساقط ہو جائے گا۔ آئین پاکستا ن کے اسی آرٹیکل کو بنیاد بناتے ہوئے آ گے بڑھنا چاہیے۔
ایک بات طے ہے کہ سوشل میڈیا ویپنائز ہو چکا ہے۔کچھ رولز آف دا گیم طے کرنا ہو ں گے۔ مغربی ممالک تو کمیونٹی سٹینڈرڈز کے نام پر خود کو محفوظ کر چکے ، پاکستان جیسی ریاستیں اس سائبر وار کے نشانے پر ہیں۔