محبت کی شادی (لو میرج)

وہ مجھ سے لوّ میرج کے بارے میں بحث کررہا تھا.. . .
اور میں اسے بتا رھا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔
لَوّ میرج ہمارے معاشرے میں کامیاب نہیں ۔ ۔ ۔!
کیونکہ اسے خاندان کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ ۔
اور معاشرے میں بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ۔ ۔
اور دینی حلقے بھی اسے ناپسند کرتے ہیں کیونکہ بعض کے نزدیک شفیق اور ھمدرد ولی کے ھوتے ھوئے لڑکی کا از خود نکاح مشکوک ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور لَوّ میرج کرنے والوں کو خاندان کبھی قبول نہیں کرتا اس لئے وہ تنہا اور معاشرتی طور پر کمزور ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حفظِ ما تقدّم کی بنا پر کئی دفعہ علاقہ ھی چھوڑنا پڑ جاتا ہے ۔ ۔
غیرت کے نام پر بھائیوں سے قتل کی داستانیں بھی عام ھیں ۔ ۔ ۔
لڑکا تو لڑکی سے کورٹ میرج کر لیتا ہے مگر بعد میں اس کے خاندان کو دشمنیوں ، پولیس ، سیاسی اور عدالتی دباؤ اور پنچائتی فیصلوں کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔!
تیز میڈیا اور موبائل ٹریسنگ کی بناء پر لڑکی والے اپنی بچی کی بازیابی کی بھرپور کوشش کرتے ھیں ، جس میں اکثر وہ کامیاب بھی ہو جاتے ھیں ۔ ۔ ۔اور لڑکے کو پھر حوالات ، عدالت اور۔ ۔ ۔ پھر جیل کا منہ بھی دیکھنا پڑ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ آپس کا کوئی ہلکا سا تناؤ یا اختلاف علیحدگی کی شکل میں ظاہر ہوتا ھے ۔ ۔ ۔ ۔
اور یہ شادیاں چند سال سے زیادہ مدت پر محیط نہیں ہوتیں،،،،،،،،،،،،،
ان کی اکثریت کا انجام جھگڑے اور طلاق پر اختتام پذیر ھوتا ھے ۔ ۔ ۔ ۔
اور علیحدگی کے بعد لڑکا تو واپس اپنے خاندان میں چلا جاتا ھے مگر لڑکی کے لئے غیرت اور جان کے خطرے کی بناء پر خاندان میں واپس کی کوئی گنجائش نہیں ھوتی اور ساری زندگی اندھیروں میں بھٹکتے ھی گزر جاتی ھے ، جو کبھی خود کشی کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے۔ ۔ ۔ !!،
اور جو لڑکی آج جذبات کی رو میں بہہ کر والدین کی عزّت کو پسِ پشت ڈال کر تمہارے ساتھ جا رہی ہے وہ کل کسی وقتی مصلحت کی بنا پر تمہیں بھی خیر آباد کہہ سکتی ہے ۔ ۔ ۔ !
اور دونوں خاندانوں سے کٹنے کی وجہ سے اولاد کے رشتوں کا مسئلہ بھی درپیش ھوتا ھے ۔ ۔ ۔ !
،،،
۔ ۔ ۔ ۔

مگر

اُس کے مطابق۔ ۔ ۔ ۔ !

ُُاُس کے گھر والے۔ ۔ ۔ ۔

شادی کرنے میں اسکی رائے کی بجائے اپنی ترجیحات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ ۔ ۔
اور اس لڑکی سے نکاح کرنے کے خواہاں ہیں جو مجھے بالکل نا پسند ھے ۔ ۔ ۔ ۔
اور والدین کا اصرار ھے کہ ہم نے رشتہ داریاں باقی رکھنی ہیں۔ ۔ ۔
اور لڑکی دیکھی بھالی ھے ہمارے ہی خاندان کی ھے اور ہماری اپنی ھے ۔ ۔ ۔
ہمارے بڑھاپے میں ہماری خدمت بھی کرے گی ۔ ۔ ۔
اور گو یہ اتنی خوبصورت اور پڑھی لکھی نہیں ھے لیکن گھر کے کام کاج اور کھانے پکانے اور سینے سلانے میں بہت ماہر ھے۔۔ ۔ ۔
اور ہمارے خاندان کا جو بھی فرد گھر میں آئے گا اس کے مراتب کے اعتبار سے اسکا اکرام و استقبال کرے گی :::
،،،، جبکہ ۔ ۔ ۔
ممی ڈیڈی والی ،،، جدت پسند پڑھی لکھی لیکچرار ،، ڈاکٹر ، یا آفیسر، ہماری خاندان کو تو کیا جانے گی ہماری بھی بات نہ سنے گی

لیکن میں ان سے کہتا ہوں۔ ۔ ۔!!

کہ زندگی میں نے اس کے ساتھ گزارنی ھے یا آپ نے ؟؟

مجھے بیوی چاہئے نوکرانی نہیں ،،
،،،، ۔ اور ہونے والی بیوی کے حسن کو تو دیکھنے کی اسلام میں بھی اجازت ہے تاکہ بعدمیں پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور زندگی پرسکون گزرے ۔ ۔ ۔

اور خاندانی جھگڑے پہلے ھی کیا کم ہیں ۔ ۔ ۔ اگر غیر خاندان کی لڑکی آئے گی تو ان سے تو جان چھوٹے گی ۔ ۔
اور کم پڑھی لکھی اولاد کی تربیت کیسے کرے گی ؟

اور ایک بڑا مسئلہ لَوّ میرج کرنے سے حل ہوجائے گا ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔اپنی باری کا انتظار ھے ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے بڑے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں اور میری باری آتے آتے تو کم از کم دس پندرہ سال لگ جائیں گے ، جس کی مجھ میں سکت نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
جبکہ مجھے ابھی شادی کرنے کی ضرورت ھے اور شادی کرنا میری مجبوری ھے ، ۔ ۔ ۔
اور میں گناہوں کی زندگی نہیں گزارنا چاہتا ۔ ۔ ۔ اور روزے رکھنے کی ھمّت مجھ میں نہیں ۔ ۔ ۔ !
اور لَوّ میرج ہی وہ واحد طریقہ ھے جس کے ذریعے سے میں بائی پاس کرسکتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ !!
۔ ۔ ۔
باقی رہی عدالت ۔، ، ،موبائل ، ، ،جھگڑے ۔ ۔ ۔ ۔
جب ھم نے یہاں رھنا ہی نہیں تو ان کا کیا غم ۔ ۔ ۔!
بحث کافی طویل ہوتی چلی گئی ، ،،،،،،،،،،،،،،
۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا ہی تھا کہ ایک بڑی گاڑی تیزی سے آکر میرے سامنے رکی اور ایک نوجوان گہرے چشموں والی عینک لگائے ہوئے ڈرائیور سیٹ سے اتر کر میری طرف لپکا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!

میں نے گاڑی کی طرف دیکھا تو فرنٹ سیٹ پر ایک چادر پوش نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی ، ، ، ،
نوجوان نے عینک اتاری ،،
ارے خالد تم۔ ۔ ۔ !
جی انکل ۔ ۔ ! میں نے لَوّ میرج کرلی اور انکل آپ کی بہو فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی ھے ہمارے لئے دعا کردیں کہ اللہ برکت ڈال دے ۔ ۔ !!

آخر تم نے لَوّ میرج کرہی لی نا ۔ ۔

انکل دراصل کئی سالوں کی محنت کے بعد میرے پاس جمع پونجی چند لاکھ روپے تھی جسکو میں سرکل میں لاکر اپنا بزنس چلا رہا تھا۔ ۔ ۔ جب میں نے شادی کے اخراجات کا ایسٹیمیٹ لگایا تو ۔ ۔ وہ میری جمع پونجی کے برابر تھا میں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ میں کوٹ میرج کرلوں تو ان سارے خرچوں سے جان چھوٹ جائے گی اور میری جمع پونجی اور بزنس بھی بچ جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔
اور باری کا انتظار میرے لیے ناقابل ِ برداشت تھا ۔ ۔ ۔ !
لَوّ میرج کے چند دن بعد ہی میں نے اور میری بیوی نے جاکر اپنے ماں باپ کے پاؤں پکڑ لئے اور رونا اس وقت تک بند نہیں کیا جب تک وہ راضی نہیں ہوگئے ۔ ۔ ۔ ۔ !

بائی پاس بھی کرلیا ۔ ۔ ۔ ۔
اور گناہوں سے بھی بچ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اَب میں والدین کے ساتھ ھی ھوتا ھوں ۔ ۔ !!
اور میرے والدین ، معززین علاقہ کے ھمراہ میرے سسرال گئے اور ان کو بھی راضی کر لیا ۔ ۔ ۔
کام تو مشکل تھا مگر اللہ تعالی نے آسان کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ !، ، ، ،اللہ نے عدالتوں ، پنچائتوں اور جھگڑوں سےبھی جان چھڑا دی ۔ ۔ ۔

دعا فرما دیں ۔ ۔ ۔ !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے