ٹائم ٹریول یا وقت میں سفر کی حقیقت

ٓآئیں آسان لفظوں میں سمجھیں کہ وقت میں سفر Time travel کیا ہے۔
ہمیں جو کچھ بھی نظر آتا ہے وہ روشنی کی وجہ سے ہے جسکی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل یاتقریباًتین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے، یعنی کوئی چیز اگر زمین سے تین لاکھ کلو میٹر دور ہے تو اس سے ٹکرا کے آنے والی روشنی کی کرن ہماری آنکھوں تک ایک سیکنڈ میں پہنچے گی اسطرح ہمیں وہ چیز ایک سیکنڈ پہلے والی نظر آئے گی۔ سورج کا فاصلہ زمین سے 150 ملین کلومیٹر ہے اور اسکی کرن ہم تک تقریباً آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے۔ مثلاًاگر ہم روشنی کی دگنی رفتار سے سورج تک جاکر واپس آجائیں تو ہمارا جانا اورواپسی آٹھ منٹ میں ہوگی اسطرح زمین پر پہنچ کر ہم خود اپنے آپ کو واپسی کا سفر کرتے دیکھیں گے، کیونکہ روشنی کی وہ کرنیں جو ہم سے ٹکراکر اور ہماری متحرّک تصاویرimagesلیکر زمین کی طرف آرہی تھیں ہم اُن سے پہلے (چار منٹ میں) زمین پر آگئے اور وہ بعد میں ہماری آنکھوں میں داخل ہوئیں۔یہی سفرِوقت یا ٹائم ٹریول Time Travel ہے، یعنی ماضی یا مستقبل میں سفر!
دیکھیں جدیدسائنسدان کیا کہتے ہیں۔

Quote: ‘I do believe in time travel. Time travel to the future. Time flows like a river and it seems as if each of us is carried relentlessly along by time’s current. But time is like a river in another way. It flows at different speeds in different places and that is the key to travelling into the future. This idea was first proposed by Albert Einstein over 100 years ago.” Stephen Hawking.
www.dailygalaxy.com/my_weblog/2010/07/stephen-hawking-time
-travel-to-the-future-is-possible.html

میں وقت میں ، مستقبل میں سفر پر یقین رکھتا ہوں۔ وقت ہم سب کوساتھ میں لئے دریا کی طرح بہتا ہے ، لیکن یہ ایک اور طرح سے دریا کی طرح بہتا ہے، یہ مختلف جگہوں پہ مختلف رفتار سے بہتا ہے اور یہی وقت میں سفر کی کلید ہے۔ یہ تصوّر ۱۰۰ سال پہلے آئنسٹائن نے دیا۔ (اسٹیون ہاکنگ)
وقت میں سفر کے لیئے سائنسداں ایک تصورر پر ریسرچ کررہے ہیں جس میں Wormholeوورم ہول معاون ہوگا۔ یہ ایک تصورّاتی خلائی راستہ ہے جو کسی پُر پیچ راستے یاپگڈنڈی پرشارٹ کٹ ہوگا۔

WORMHOLES: These space-time tubes act as shortcuts connecting distant regions of space-time. By journeying through a wormhole, you could travel between the two regions faster than a beam of light would be able to if it moved through normal space-time. As with any mode of faster-than-light travel, wormholes offer the possibility of time travel.
http://www.pbs.org/wnet/hawking/strange/html/wormhole.html

وورم ہول: یہ اسپیس ٹائم ٹیوب Space-Time Tube ہے جو کائنات کے دور دراز علاقوں کو ملانے والا ایک چھوٹا راستہ ،شارٹ کٹ، ہے۔ اس میں سفر کرتے ہوئے آپ روشنی کیُ اس بیم سے زیادہ رفتار سے سفر کریں گے جو اسپیس ٹائم میں سفر کرتی ہے۔ کسی بھی پیرائے میں وورم ہول میں ر وشنی سے زیادہ رفتار سے سفر کا مطلب وقت میں ممکنہ سفر ہوسکتا ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق نظریاتی طور پر روشنی سے تیز سفر ممکن نہیں لیکن یہ نظریہ اب تک کے حاصل علم کے مطابق ہی ہے۔ کائنات کے ہر لحظہ پھیلنے میں ایک نئے عامل اندھیری توانائی Dark Energyکی ممکنہ موجودگی سے یہ بات بھی ثابت ہوسکتی ہے کہ روشنی سے بھی تیز حرکت ممکن ہے۔ ایک سائنسی نظریہ یہ بھی ہے کہ کائنات روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار سے ہر لحظہ پھیل رہی ہے ، جس کے بموجب رفتار کا لامحدود ہونا بھی ممکنات میں ہے۔ یعنی ہم منطقی طور پر رفتار کو روشنی تک محدود نہیں کرسکتے۔
مندرجہ بالا حوالے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وقت میں سفر یعنی وقت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھنا جدید سائنسی نظریہ ہے، اسی کو خالق نے ۱۴۰۰ سال قبل سفر معراج میں عملاً دکھا دیاتھا۔

قرآن: (سورۃ۱۷ ،آیت۱)
"پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی مسجد حرام سے
مسجد اقصیٰ تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے۔
تاکہ اسے اپنی نشانیوں کامشاہدہ کرائے۔ وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔”

غور کریں کہ قرآن انسان کو ایک بظاہر انہونی اور انوکھی بات سے آگاہ کر رہا ہے جو سمجھ میں تو نہیں آتی لیکن جدید سائنسی نظریات اس کی تصدیق کرتے ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐ نے ایک رات مکّہ سے بیت المقدس کا سفر کیاجس کا قرآن میں تذکرہ کیا گیا ہے پھر اس کے بعد آپ ﷺوہاں سے آسمان پرایک انوکھی تیز رفتار سواری پر تشریف لے گئے ہے اور مزید یہ تذکرہ بھی اس آیت میں ہے کہ کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔ اس کو سفرِمعراج کہا جاتا ہے۔ جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو زمین پروقت وہی تھا حالانکہ آپ بہت طویل وقت یہاں سے غیر حاضررہے تھے۔ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے روشنی کی رفتار سے بھی بہت زیادہ رفتار سے سفر کیا۔ اسی لیئے زمین پر وقت نہیں گزرا اور آپ ؐ کی واپسی ہوگئی۔ قرآن میں اس کا تذکرہ اس کے کتابِ الٰہی ہونے کا ثبوت ہے۔

ایک نکتہ قابل غور یہ ہے کہ اگر قرآن کسی انسا ن کی تحریر ہوتاتو وہ ایسی انہونی بات جس کو عام انسان قبول نہ کرے کیوں لکھتا۔
گویا سفرِ معراج میں کائنات میں رواں عظیم تر اور غالب سائنس کی قوّت کا ایک مظاہرہ ہواجسکو جدید سائنس ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے ۔

تو قرآن کو فرسودہ کتاب سمجھنے والے منکرین اور سیکولر دوست خاطر جمع رکھیں کہ اگر قرآن کسی خالق کا کلام ہے ، جو یقیناً ہے، تو پھر وہی خالقِ کائنات ہر سائنس پر غالب ہے اور اللہ خود جب چاہے گا، جدیدسائنس کے ذریعے ہی اپنی تصدیق کرائے گا۔

خدائی سرگوشیاں اور جدید نظریات سے اقتباس۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے