خواتین بل ،مفتی نعیم اورکاکا خیل

گزشتہ کچھ دنوں سے الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ایک واویلہ مچا ہوا ہے، تحفظ خواتین بل پر مفتی نعیم صاحب کے بیانیے کو لے کر ہر بندہ تیل پانی لے کر مفتی نعیم صاحب پر چڑھ دوڑ رہا ہے کہ مفتی صاحب کو ایسا نہیں ویسا کہنا چاہئے تھا۔۔۔ مفتی صاحب کو میڈیا پر نہیں آنا چاہئے۔۔۔ فلاں صاحب کو آگے آنا چاہئے۔۔۔ عدنان کاکاخیل اور حمد اللہ صاحب بہترین نمائندگی کرتے ہیں۔۔ وفاق کو میڈیا سیل قائم کرنا چاہئے۔۔۔ غرض ہر دانشور ہر لکھاری لمبے چوڑے تجزئے تبصرے کرچکا ۔۔۔اتنے دانشوروں کی تحریر کے بعد سوچا کیوں نا ہم جیسا دانشور بھی پیچھے کیوں رہے ، سو اس تناظر میں چند باتیں پیش خدمت ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ مفتی نعیم صاحب عرصہ دراز سے میڈیا پر موجود ہیں، 95 سے 2000 تک جب چینلز موجود نہیں تھے تو وہ پی ٹی وی یا سی این این کو ایک آد انٹرویو دیتے رہے یاپھر اس زمانے میں پرنٹ میڈیا پر اپنا موقف پیش کرتے رہے،میڈیا کا مفتی صاحب سے چولی دامن کا تعلق ہے اور رہا ہے، میڈیا کے لئے وہ منفرد اس لئے بھی ہیں کہ وہ ہر معاملے میں اپنا ایک الگ موقف رکھتے ہیں، اور بلا جھجھک وہ اپنا موقف بیان کرتے رہے ہیں، یہ شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ پاکستان کے علماء کرام میں شرعی معاملے میں سب سے زیادہ لچک رکھنے والے مفتی ہیں ، وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ وہ 30 سال امریکہ آتے جاتے رہے ، مغربی معاشرے کو بہہت قریب سے دیکھا ، لہذا یہ بات تو حقیقت ہے کہ خواتین کے حقوق کے معاملے میں وہ جو بھی بات کرتے ہیں وہ مغربی معاشرے کے مشاہدے کی بنیاد پر ہی کرتے ہیں۔

عصر حاضر کی جدید ضروریات کو شروع دن سے مفتی صاحب نے تسلیم کیا، چاہے وہ جدید تعلیم ہو، جدید ٹیکنالوجی ہو، لڑکیوں کی تعلیم ہو یا پھر خواتین کے حقوق ہوں۔ اس بات سے آپ اندازہ لگالیجئے کہ آج سے کوئی 25 سال پہلے جب سی سی ٹی وی کیمرے کی ابھی شروعات ہی ہوئی تھی تو مفتی صاحب اس سسٹم کو جامعہ بنوریہ میں متعارف کروا چکے تھے، حالانکہ اس زمانے میں ان پر کئی فتوے بھی لگے، 95 میں جب پاکستان کے سرکاری محکموں کی ویب سائٹس کا تصور نہیں تھا ، ویب سائٹس کے لئے ڈومین لینا کسی ٹی وی چینل کے لائنسس لینے سے کم نہیں تھا اس وقت جامعہ بنوریہ اپنی ویب سائٹ کھڑی کرچکا تھا۔ بالکل اسی طرح جب ٹی وی چینلز کی بھرمار پاکستان میں شروع ہوئی تو اول دن سے مفتی صاحب اور ان ٹی وی چینلز کا واسطہ رہا ،اور ببانگ دہل وہ اپنا موقف جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر پیش کرتے رہے ، حال ہی جہاں عمران خان کے پشاور والے ہسپتال پر ان کی تعریف میں بیان دینے پر جہاں مذہبی حلقے انہیں آڑے ہاتھوں لیا وہی دوسری جانب ویلنٹائن کے مسئلے پر سیکولر و لبرل طبقے نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیا، اسی طرح رام سبرامانیم کی پروفائل فار پیس کمپین کی حمایت پر انہیں غدار کے القابات ملے تو دوسری طرف تحفظ حقوق نسواں بل پر اپنا موقف پیش کرنے پر بھی اخلاق سے گرے القابات سے نوازا گیا، مگر ان سب سے انہیں فرق نہیں پڑا کیونکہ وہ آج بھی اپنا موقف ، اپنا مافی الضمیر جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر بیان کرتے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ کہ بہت سے دانش ور انہیں دین کا ٹھیکدار سمجھ بیٹھے ہیں ، یا بعض دانش ور انہیں دین اسلام کا ٹھیکیدار بنا کر پیش کرتے ہیں حالانکہ ایسا تاثر انہوں نے کبھی نہیں دیا، مگر ناجانے کیوں لوگ انہیں دین اسلام کا ٹھیکیدار سمجھ بیٹھے ہیں، حالانکہ اس ملک میں بڑی بڑی تنظیمیں اور ادارے موجود ہیں جو کہ دین اسلام کی ٹھیکیداری کی ذمہ داری بخوبی اٹھائے گھوم رہے ہیں۔

اسی تناظر میں یہاں میں ان لوگوں کے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں جو مفتی صاحب کے تناظر میں بڑھ چڑھ یہ رائے دینے میں مگن ہیں کہ مفتی صاحب کے بجائے عدنان کاکاخیل کو آکر میڈیا فیس کرنا چاہئے یا ایسے نازک مسئلے پر فلاں فلاں کو آگے لا کر بات کرنی چاہئے ، یا وفاق کے تحت میڈیا سیل کے ذریعے موقف پیش کرنا چاہئے۔ سی پی آرڈی کا نام آپ نے سنا ہوگا ، سن 2012ء میں کراچی کے ایک معروف دینی ادارے نے سی پی آرڈی کے نام سے ایک تھنک ٹینک بنایا جس کے سی ای او کی ذمہ داری عدنان کاکاخیل صاحب کو دی گئی، اس تھنک ٹینک کے کیا اغراض و مقاصد تھے ؟ کس مقصد کے لئے وجود میں اسے لایا گیا وہ تو آپ ان کی ویب سائٹ پر جاکر پڑھ سکتے ہیں ، مگر میں یہاں چند نکات پیش کرتاہوں،سی پی آرڈی کے نام سے تھنک ٹینک کے وجود پانے سے مذہبی طبقے میں پہلے پہل تو خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ شکر ہے کوئی ایسا ادارہ تو آیاجو کہ ملک کے اندرونی و بیرونی مسائل اور ایشوز پر کوئی بیانیہ تو فراہم کرے گا جس کی راہنمائی میں مذہبی طبقہ اپنا موقف متفقہ اور بہتر انداز میں پیش کرسکے گا، جو کہ تھنک ٹینک کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے، مگر ہم نے دیکھا آج چار سال ہونے کو ہے مگر کسی بھی ایک قومی مسئلے پر چاہے وہ دہشت گردی کا بیانیہ ہو یا پھر ملک میں قانون سازی کا معاملہ ہو کسی ایک مسئلے پر بھی کوئی تحقیق یا پالیسی جاری نہیں کی گئ سوائے فیملی بزنس پر چند ایک سیمینار منعقد کئے گئے، حالیہ تحفظ خواتین بل پر سی پی آرڈی کی خاموشی پر جب میں نے اپنا نقطہ اختلاف ذکر کیا تو ایک صاحب نے پرجوش ہو کر فرمایا کہ جناب پہلے سی پی آرڈی کی ویب سائٹ پر اغراض ومقاصد پڑھ لیں پھر اختلاف کریں، لہذا ان کی خواہش پر ویب سائٹس پر جو اغراض و مقاصد میسر آئے ان میں سے سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ سی پی آرڈی کیا ہے؟

ملاحظہ فرمائیں:
What is CPRD?
Center for Policy Research and Dialogue (CPRD) is a think tank in private sector, established in 2012 for policy studies, research and dialogue. It has its main office in the capital of Pakistan, Islamabad with a backend office in Karachi. It was created to work for finding the Sharia’a based sustainable solutions of the problems faced by our society in particular and the globe in general۔

ترجمہ کرنے کا وقت نہیں ، آپ تمام بڑے دانش ور ہیں اس ایک پیراگراف کے پڑھنے کے بعد یقینا آپ جان سکتے ہیں کہ تحفظ خواتین بل پر اس ادارے کا کیا کردار ہونا چاہئے تھا،
اسی طرح پرائمری اغراض و مقاصد کے پہلے نقطے پر بھی ایک نظر ڈالئے:
1. Development of a robust mechanism of creative thinking, conducting research on policy issues, and initiate dialogue at appropriate forums to find sustainable solutions of the burning problems of our society and the global village at large.

مزید تفصیلات آپ ویب سائٹ پر جاکر دیکھ سکتے ہیں۔ مفتی نعیم صاحب سے متعلق اس تحریر میں سی پی آرڈی کے ذکر کرنے کا مقصد عدنان کاکاخیل صاحب نیچا دکھانا یا اس ادارے کی توہین مقصود نہیں بلکہ مذہبی طبقے کی جانب سے مفتی نعیم کے نعم البدل کے طور پر عدنان کاکاخیل صاحب کو پیش کرنے والے حضرات کو چند حقائق دیکھا نا مقصود تھا، مفتی صاحب اپنا موقف نا تو کسی تھنک ٹینک کے تحت پیش کرتے ہیں اور نا ہی حرف آخر سمجھ کر، مگر جب اسی طبقے ایسے مسائل پر تھنک ٹینک کی شکل میں ادارے موجود ہوں اور وہاں سے کوئی بیانیہ جاری نا ہو تو پھر یقینا ہر شخص اپنا موقف پیش کرنے میں حق بجانب ہے چاہے وہ جیسا بھی، کسی کو پسند آئے یا نا آئے۔ ہاں جس دن ایسے تھنک ٹینک اپنی ذمہ داری سمجھ لیں اور قوم کو ہر آنے والے مسئلے پر ایک متفقہ بیانیہ بروقت فراہم کریں تو یقینا ایسی صورتحال شاید پیدا نا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے