ممتاز قادری اورسلمان تاثیرایشو سے حاصل ہونے والے پانچ سبق

ساسلمان تاثیر اور ممتاز قادری والے سارے قصے میں جو چیز ہماری سمجھ میں آئی ہے ، آپ کے ساتھ بھی اسے شئیر کرنا چاہتا ہوں ۔

[pullquote]سلمان تاثیر
[/pullquote]

سلمان تاثیر صاحب زبان کے معاملے میں انتہائی لاپرواہ قسم کے انسان تھے ۔ الفاظ کے چناؤ اور انتخاب نے انہیں اس مقام تک پہنچا دیا کہ وہ معاملہ حل کرنے کے بجائے خود ایک مسئلہ بن گئے تھے ۔ انہیں آسیہ بی بی سے ملنے جیل نہیں جانا چاہیے تھا بلکہ اس سارے مسئلے کو وہ معاشرے کے اہم افراد کی مشاورت سے حل کر سکتے تھے ۔ انہوں نے اپنے منصب کا احساس نہ رکھنے کے ساتھ ساتھ حساس موضوع کی حساسیت کا خیال بھی نہیں کیا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ سلمان تاثیر نے واضح انداز میں کہا کہ وہ توہین رسالت ؐ کی سزا کے مخالف نہیں بلکہ سابق آمر ضیاٗ الحق صاحب کے دور میں بنائے گئے قانون توہین رسالت کے حوالے سے بات کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اس کام کو سنجیدگی کے ساتھ کرنے کے بجائے میڈیا پر خبروں کی زینت بنایا ۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد یہ بات تو ہر جگہ محسوس کی گئی کہ پولیس ، فوج ، خفیہ اداروں میں کس قسم کی ذہنی اور فکری تربیت کے حامل لوگ موجود ہیں۔

سلمان تاثیر صاحب کے واقعے سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ گفت گو کرتے ہوئے موقع محل ضرور دیکھنا چاہیے اور حساس موضوعات پر گفت گو متعلقہ پلیٹ فارمز پر ہی کرنی چا ہیے ۔
یہ پہلا سبق ہے ۔

[pullquote]میڈیا
[/pullquote]

سلمان تاثیر کو اس مسئلے پر کئی میڈیا اینکرز نے اپنے پروگراموں میں بلایا اور اصرار کر کے ایسی گفت گو کرائی گئی جس کے نتائج بلاشبہ سلمان تاثیر کو ہی بھگتنے تھے ۔ اس سلسلے میں ڈان نیوز کی مہر بخاری کا پروگرام دیکھ کر اْپ میری رائے سے شاید اتفاق کریں ۔ میڈیا نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے خبر نگاری کے بجائے سنسنی خیزی پھیلائی اور معاشرے میں ہنگامہ برپا کیا ۔

میڈیا کی حالت یہ ہے کہ جن لوگوں پرانتظامیہ مختلف اضلاع میں تقاریر پر پابندی لگاتی ہے ، رات کو ٹی وی اینکرز انہیں پوری دنیا کے سامنے قابل تقلید ہیرو کے طور پر پیش کررہے ہوتے ہیں ۔

آپ دیکھیں جاوید چوہدری صاحب اور مہر بخاری صاحبہ نے اپنے پروگرام میں ممتاز قادری کو قتل پر اکسانے والے مفتی صاحب کو بلایا ۔

میڈیا میں فرقہ واریت کو پھیلانے والے افراد موجود ہیں جن کا ایجنڈا ہی فرقہ وارانہ ہے ۔

دوسری بات یہ ہے حکومت پاکستان اور پیمرا (پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ) نے پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹی وی چینل کھولنے کے لائنسنس دیے ہوئے ہیں ۔ اس وقت بھی دو نیوز چینلز فرقہ وارانہ ایجنڈے پر "برادر اسلامی” ملک کے تعاون سے کام پر رہے ہیں ۔ ایک ویب چینل کو پاکستان کی ایک کالعدم جماعت کے اہم افراد "برادر اسلامی” ملک سے چلا رہی ہے ۔

ٹی وی چینلز پر رمضان میں مذہبی پروگرام کرنے والے ایک "معروف” عالم دین نے ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد، دو روز پہلے دیوبندیوں کو علی الاعلان جلسے میں گستاخ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب سنی جاگ گئے ہیں ۔ انہی حضرت نے ایک ٹی وی چینل کے سٹوڈیو سے ڈاکٹرمیمونہ مرتضیٰ ملک کو گستاخ رسول کہہ کر اٹھا دیا تھا جب انہوں نے قرآن کی ایک آیت پڑھ کر اس کا ترجمعہ کیا تھا ۔

ایک اور معروف اور نمایاں اینکر بھی ٹی وی پر بیٹھ کر فرقہ وارانہ تقاریر کرتے ہیں جن کا تعلق معاشرے میں بین المسالک ہم آہنگی کی فضا کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے ۔ ان حالات میں پیمرا کے کردار کو مزید موثر بنانے کے لیے سوشل میڈیا پر دباؤ بڑھانا ہوگا ۔ یہ دوسرا سبق ہے

[pullquote]اہل مذہب
[/pullquote]

سلمان تاثیر کی گفت گو کے بعد اہل مذہب کا رویہ اصلاح کے بجائے انتہائی نازیبا تھا ۔راولپنڈی راجا بازار کے باہر ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایک کالعدم جماعت کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے ڈپٹی چئیرمین سینٹ اور اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پوسٹل سروسز مولانا عبدالغفور حیدری صاحب کی موجود میں ایسے نازیبا الفاظ استعمال کئے کہ میں انہیں یہاں لکھنے سے بھی قاصر ہوں ۔

اسی طرح سلمان تاثیر کے قتل کے بعد لاہور میں تحفظ ناموس رسالت کانفرنس میں بھی پنجاب کے ایک مولوی صاحب نے لاہور کے ایک عالم دین کے بارے میں انتہائی شر پسندانہ قسم کی گفت گو کی حالانکہ سٹیج پر مولانا فضل الرحمان ، سیدمنور حسن ، قاضی حسین احمد ، علامہ ساجد علی نقوی سمیت اہم شخصیات موجود تھیں ۔

اہل مذیب کی تفریق اور تقسیم سے کون آگاہ نہیں ، ایک دوسرے کے خلاف کفر اور گستاخ رسول کے فتوے کسی سیکولر یا لبرل نے نہیں دیے بلکہ انہی مذہبی لوگوں نے ایک دوسرے کے بارے میں دیے ۔ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری نے راولپنڈی کے ایک مفتی کی تقریر سننے کے بعد ہی سلمان تاثیر کے قتل کا فیصلہ کیا تھا تاہم مفتی صاحب نے عدالت میں جو بیان حلفی جمع کرایا اس میں واضح طور پر لکھا کہ ان کا ممتاز قادری سے کوئی تعلق نہیں ۔ جب مقرر اور سامع کا کوئی رشتہ نہیں تو سننے والوں کو زرا ان اداؤں پر غور کرنا چاہیے ۔

رسول اللہ کی توہین کی سزا پاکستان کے قانون کے مطابق موت ہے اور یہ سزا ریاست نے ہی دینی ہے ۔ اس وقت دیوبندی، بریلوی اور جماعت اسلامی جس طرح ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ان کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں ، وہ شاید ان کی نظر میں ٹھیک ہو ۔ تاہم انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں پانچ سوسے زائد توہین رسالت کے مقدمات مسلمانوں نے ایک دوسرے کے خلاف کروا رکھے ہیں ۔ ابھی تک ان کا فیصلہ نہیں ہوا ۔

میرا ان علماٗ سے سوال ہے کہ اگر کل کوئی اٹھ کر ممتاز قادری بننے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں قتل کرتا ہے کیا اس سے ریاست میں فساد نہیں پھیلے گا ؟

ممتاز قادری کے نزدیک دیوبندی پکے گستاخ تھے ، ایک واقعہ آپ کو بتاتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ممتاز قادری مرحوم کی سوچ کا

جھنگ سے منتخب سابق رکن قومی اسمبلی اور کالعدم سپاہ صحابہ کے مقتول رہ نما مرحوم مولانا اعظم طارق صاحب جب جیل میں تھے تو انہوں نے وہاں ہر عید کے موقع پر کھیر پکانے کی روایت قائم کی ۔ ان کے قتل کے بعد بھی مختلف جیلوں میں کھیر پکانے کی یہ رسم اب بھی جاری ہے ۔ چار سال پہلے جب اڈیالہ جیل میں قید سپاہ صحابہ کے کارکنوں نے کھیر بنائی تو ممتاز قادری مرحوم کے لیے بھی بھیجی گئی ۔ ممتاز قادری نے پلیٹ اٹھا کر پھینکتے ہوئے کہا کہ ” جیسا گستاخ سلمان تاثیر تھا ، ویسے گستاخ دیوبندی بھی ہیں ” ۔

مجھے نہیں علم شہباز شریف صاحب کے اب کیا خیالات ہیں تاہم ایک زمانے میں وہ بھی یہی خیالات رکھتے تھے جن کا اظہار انہوں نے ایک بھرے اجلاس کے دوران بھی کیا تھا ۔ اس اجلاس میں مولانا ضیاٗ القاسمی مرحوم اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم بھی موجود تھے ۔

ان واقعات کا یہاں ذکر کرنے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ میں کوئی آگ بھڑکانا چاہتا ہوں ، میں صرف تصویر کا وہ چہرہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ کل قتل و قتال کا معاملہ اسی طرح چلنا شروع ہو گیا اور آپ لوگ ممتاز قادری مرحوم کی طرز پر ہیرو بنانا شروع ہو گئے تو اس آگ کی تپش شاید آپ کے دامن کو بھی جلا کر راکھ بنا دے گی ۔

کافر کافر شیعہ کافر، دیوبندی گستاخ رسول ، وہانی گستاخ رسول و اولیاٗ ، اہل حدیث غیر مقلد ،بریلوی مشرک ، ایک یہودی سو مودودی کے نعرے اور کچھ شیعہ کی طرف سے صحابہ کی تکفیر اور توہین پر مبنی لٹریچر اب بھی پاکستان میں با آسانی دستاب ہے ۔ یہ درست ہے کہ سارے علماٗ اس دھندے میں ملوث نہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ جو ملوث ہیں ، وہی اس وقت ان مسالک کا چہرہ بن گئے ہیں ۔ ان مسالک کی علمی شخصیات ان واعظوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں اور یرغمال ہیں ۔

خدا کے لیے اب خود اپنے حال اور اس ملک پر رحم فرمائیے ۔ یہ ملک شام ، یمن ، عراق ، مصر، لیبیا بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

علماٗ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی، کس حد تک درست ہے ، میں اس پر شاید کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ، ہو سکتا ہے کہ ان کی بات درست بھی ہو اور نہ بھی ہو تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو فروغ دینے میں مولوی صاحبان ہی ملوث تھے ۔ یہ آوازیں کسی مسجد یا امام بارگاہ سے ہی بلند ہوتیں رہیں ۔

میں کئی علماٗ سے کہہ چکا ہوں کہ پاکستان میں نوجوان طبقہ تیزی کے ساتھ مذہب اور خدا بیزار ہوتا جا رہا ہے اور اس کا سبب آپ ہیں ۔ اللہ نہ کرے کہ کل وہ دن آئے کہ پاکستان میں مساجد پر تالے پڑے ہوں ۔ غور سے اپنے عمل کو دیکھئے ، کتنے لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں ؟ ۔جمعے کو لوگ اس وقت پہنچتے ہیں جب آپ کی تقریر ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ علما کی باتیں عوام میں نہیں کر نی چاہییں لیکن زرا دیکھئے کہ عوام شاید زیادہ ہوشیار ہے وہ ان باتوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتی جو آپ کرتے ہیں ۔
یہ تیسرا سبق ہے ۔

[pullquote]ممتاز قادری
[/pullquote]

ممتاز قادری کی پھانسی اور جنازے میں ہزاروں لوگوں کی شرکت نے ایک بات واضح کر دی کہ اس ملک میں قانون توہین رسالت میں کسی قسم کی ترمیم نہیں ہو سکتی ۔ ممتاز قادری کا جنازہ ایک طرح سے ریفرنڈم تھا ۔اس جنازے میں کسی خاص مسلک کے لوگ شریک نہیں تھے بلکہ تمام مسالک کے اورعام مسلمان آئے تھے ، اوروہ عام مسلمان ممتاز قادری کے عمل کے مخالف اور جذبے کے حمایتی تھے ۔ یہ چوتھا سبق ہے ۔

[pullquote]پھانسی[/pullquote]

ممتاز قادری نے سلمان تاثیرکا قتل کیا اور اس کا بر ملا اعتراف بھی کیا ۔ عدالت نے قانون کے مطابق ممتاز قادری کو سزائے موت دے دی ۔ شاید کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ جس کو چاہیں ، قتل کر دیں ، انہیں سزا نہیں ملے گی تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ شاید ریاست اپنا مزاج بدل رہی ہے ۔ اس مزاج کا ترجمعہ اور تشریح آپ کو ملک اسحاق ، غلام رسول شاہ اور ممتاز قادری سمیت کئی افراد کی پھانسیوں اور ماورائے عدالت قتل سے ہو جانی چاہیے ۔
تو یاد رکھیں ، لوگوں کو جذباتی نہ بنائیں ،اب قتل کریں گے تو پھانسی بھی ہوگی ۔
یہ ہے پانچواں سبق

[pullquote]وہ سبق جو حاصل نہیں کیا گیا
[/pullquote]

ایک سبق جو حاصل نہیں کیا گیا وہ یہ ہے جو لوگ منبر ومحراب اور فرقہ وارانہ لٹریچر سے نوجوانوں کے مذہبی جذبات کو ورغلاتے ہیں ۔ ان پر کوئی قدغن یا سزا کیوں نہیں ۔یہ لوگ بھی تو برابرکے مجرم ہیں تاہم اب بھی ٹی وی چینلز اور منبر محراب پریہی طبقہ قابض ہیں ۔
جب تک آپ ملک میں لاؤڈ اسپیکر پر مکمل پابندی عائد نہیں کراتے ، اس وقت تک مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ مذہبی اداروں کے پبلشنگ ہاؤسز پر پابندی اور رسائل کی سکیننگ لازمی ہے ۔
یہ وہ سبق ہے جو ریاست نے ابھی تک نہیں حاصل کیا ۔

[pullquote]ایک چھوٹی سی کہانی
[/pullquote]

میں چار جنوری 2011 کو ایبٹ آباد اپنے گھر میں تھا ، تین معروف علماٗ بیٹھے تھے ۔ ہماری گفت گو سلمان تاثیر صاحب کے رویے کے خلاف ہی چل رہی تھی ۔ نماز ظہر کے بعد علماٗ رخصت ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد موبائل فون پر سلمان تاثیر کے قتل کی خبر آگئی ، مجھے بہت افسوس ہوا ۔ میں اپنی والدہ کے پاس بیٹھا تھا۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر والدہ نے پوچھا کیا ہوا ؟
میں نے انہیں سلمان تاثیر کے قتل کا بتا یا ۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ، ظلم کیا ظالموں نے

تھوڑی دیر بعد سب سے پہلے وفاق المدارس العربیہ کے ترجمان مولانا عبدالقدوس محمدی صاحب کا میسج آیا جس میں قاری حنیف جالندھری صاحب اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور دیگر علماٗ کی جانب سے سلمان تاثیر کے قتل کی مذمت کی گئی تھی ۔ پھر راول پنڈی سے علامہ حیدر علوی صاحب کا مذمتی پیغام آیا جس میں انہوں نے قتل کی مذمت کی تھی ۔ پھر صاحبزادہ فضل کریم مرحوم کا فون آیا ، انہوں نے کہا کہ ” جو لوگ مزارات پر حملے کر رہے ہیں ، انہوں نے ہی سلمان تا ثیر کو بھی قتل کیا ہے ۔

تھوڑی دیر بعد گرد بیٹھی تو پہلا فون آیا ، ہمارا مذمتی ٹکر نہ چلائیں ، ابھی مشاورت جاری ہے ۔ پھر علوی صاحب نے بھی یہی کہا ۔ منہاج القرآن کے علاوہ سب نے اپنے ٹکرز واپس لے لیے ۔ اگلے روز اسلام آباد میں ، میں اور ابصار عالم صاحب (چئیرمین پیمرا) اکٹھے تھے ۔ میں نے انہیں یہ میسج دکھا ئے کہ پہلے لوگوں نے مذمت کی اور اب مکر گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس پر تو پروگرام کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت وہ آج ٹی وی پر پروگرام کر رہے تھے ۔

کچھ روز بعد عیدگاہ شریف راولپنڈی میں بریلوی علماٗ کا ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں بریلوی مکتب فکرکے معروف علماٗ شریک تھے ۔ صاحبزادہ فضل کریم صاحب مرحوم نے مجھے اجلاس میں بلا لیا ۔ آپس میں بیٹھے تو انہوں نے میری رائے لی (یہ رائے بحثیت صحافی نہیں تھے ) میں نے سب کے سامنے کہا کہ سلمان تاثیر کی باتیں قابل برادشت نہیں تھیں تاہم ممتاز قادری کا عمل بھی برادشت کے قابل نہیں ۔ ظاہر ہے وہ اس بات پر خوش نہیں تھے ۔

بھنگالی شریف عرس پر جاتے ہوئے راستے میں ان سے تفصیلی بات ہوئی تھی ، میں نے کہا کہ میں مذہبی حوالے سے بات نہیں کرتا ، میں معاشرتی حوالے سے بات کر رہا ہوں ۔ وہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ کسی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ۔ بھنگالی شریف کے پیر سید جابر علی شاہ بھی موجود تھے جب ہماری ان کی بیٹھک میں گفتگو چل رہی تھی ۔

[pullquote]اصل سبق
[/pullquote]

سب وہاں چلے گئے جہاں ہم سب نے بھی جانا ہے ۔
حشر کا میدان ہو گا ۔ اللہ فیصلہ کرے گا کیونکہ نیتوں کو اور ارادوں کو وہی بہتر جانتا ہے ۔ وہی انصاف کے ترازو میں تول کر بتائے گا کہ کس نے کیا کیا ؟ ہمارا کام ہے کہ ہم جذباتیت سے ہٹ کر ایک دوسرے کی رائے کو سنیں اور سمجھیں ۔ پہلے میں بھی ایک خاص ماحول کے زیر اثر رہ کر سوچتا تھا تاہم میں نے ایک عرصے سے اپنے اسلوب پر سوچنا شروع کیا ہے ۔ جو نتیجہ نکلتا ہے ، اسے مختلف الخیال اہل علم و دانش کے سامنے رکھتا ہوں ، وہ اس میں اپنا In put دیتے ہیں ، میں رکتا نہیں ، سوچنے کا سفر جاری رکھتا ہوں ۔

میں سمجھتا ہوں کہ اللہ نے مجھے اس دور میں اس لئے پیدا کیا ہے کہ میں اس دور کے مطابق سوچوں اور نئی منزلیں تلاش کروں ۔ اگر مجھے پرانے لوگوں کی طرح سوچنے کا پابند بنایا ہوتا تو مجھے وہ چار سو سال پہلے پیدا کرتا ۔ان کے سامنے اور چیلنجز تھے، میرے سامنے اور ہیں ۔

آج پیدا کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ میں آج کے مطابق سوچوں ۔ مجھے حق حاصل ہے کہ میں اپنی سوچ کو اچھے اور شائستہ انداز میں اپنے دوستوں اور احباب کے سامنے بھی رکھوں اور اس میں منافقت نہ کروں ۔ میرے نتیجہ فکر سے لوگوں کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اتفاق بھی ۔ یہ آپ کا حق ہے کہ آپ میرے نتیجے کو قبول کریں یا اس کا رد کر دیں ۔ تاہم سننے والے کو بھی چاہیے کہ وہ ادب و احترام کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے ۔

تو گذارش یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ الجھنا نہیں چاہیے بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ کیسے ہم اس ملک میں فرقہ وارانہ مخاصمتوں کو ختم کرکے ایک پر امن معاشرہ اور بہتر پاکستان وجود میں لا سکتے ہیں ۔
یہ کام ہم اس وقت ہی کر سکتے ہیں جب ہم سچے دل اور اچھے دماغ کے ساتھ ، ہر قسم کی مذہبی ، لسانی ، مسلکی تعصب سے بالاتر ہو کر کھڑے ہو جائیں ۔
یہ ہے اصل سبق

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے