فیاضیاں ( نویں قسط )

سر پر بڑی سی کالی پگڑی، کاندھے پر دھری، گہرے رنگوں والی سندھی چادر،گوشتی رنگ کی ڈھیلی ڈھالی قمیض اور کھلے، لمبے پائنچوں والی سفید شلوار۔۔ یہ اس کا لباس تھا۔ لمبوترے چہرے پر کھڑی ناک کے نیچے گہری، کالی سیاہ، گھنی مونچھیں اس کی مردانہ وجاہت میں اضافہ کرتی تھیں تو ہاتھ میں پکڑی، تیز دھار اور لمبے پھل والی چمکتی کلہاڑی اس کی بہادری کے قصے بیان کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے وہ ہر منگل کی شب 8 بجے آتا تھا اور یوں آتا تھا کہ بس حواس پر چھا جاتا تھا۔ ہاشم ںام تھا اس کا۔۔۔ ہاشم خان۔

1983 کے ماہ ستمبر کی ایک ڈھلتی شام تھی جب وہ سندھ کے کسی نسبتا سرسبز گوٹھ میں کھیت کھلیانوں کے بیچوں بیچ، اپنی ہی دھن میں، لمبے لمبے ڈھگ بھرتا چلا جارہا تھا۔ اس شام اس کے ہاتھ میں کلہاڑی تو موجود تھی مگر اس کے کندھے مخصوص سندھی چادر سے بے نیاز تھے۔ چھوٹے چھوٹے سفید رنگ پھول اگاتی، لال سی زمین والی چادر اوڑھے، وہ، اس سے چند قدم پیچھے تھے۔ وہ جو رانی تھی اور اس کی بیوی، جس سے اس نے گاوں کے قدیم رسوم و رواج سے لڑتے ہو ئے ایک ایسے وقت میں نکاح کیا تھا جب پوری برادری اور سارا گاوں رانی پر ناکردہ گناہوں کا بوجھ لاد کر اسے جان سے ماردینے کے درپے تھا۔

ہاشم خان اپنی ہی دھن میں چلتا، رانی سے کئی قدم آگے بڑھ گیا تھا۔ ” ہاشم ” ! فضا میں نسوانی آواز گونجی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، رانی چلتے چلتے رک گئی تھی شاید تھک کر۔ وہ رکا پھر لوٹا اور اس کے قریب آیا۔”کیا ہوا! تھک گئی ہو کیا”؟؟؟ ہاشم نے پوچھا تھا۔ ” تم کتنے بھی تیز چلو! کتنی ہی دیر چلو! میں، تمہارے پیچھے پیچھے چلتی رہوں گی "۔ رانی نے محبت سے کہا تھا۔ ہاشم خان نے چہرے پر مسکراہٹ سجائی۔ ” تم نے چڑیا اور باز کی کہانی سنی ہے؟ ” جواب ملا۔ "ہاں سنی ہے”۔ مجھے یاد پڑتا ہے ہاشم اور رانی کے درمیان باقی کا مکالمہ کچھ یوں تھا۔

چڑیا جب باز کے پیچھے اڑتی ہے تو بے چاری کے پر ٹوٹ جاتے ہیں۔

کیا کہیں زمانے کو، بے چاری چڑیا کا بیاہ کرا دیا باز کے ساتھ۔۔۔

زمانے نے تو بیاہ نہیں کرایا۔

پھر کس نے کرایا ہے؟

باز چڑیا کو اپنے پنجوں میں لیکر اڑا ہے۔

تو چڑیا بے چاری اب تھک گئی ہے!!!

یہ پاکستان ٹیلی ویژن کا ڈرامہ ” دیواریں ” تھا۔ دیواریں، جس کا آغاز شاید 1983 کے جولائی میں ہو اتھا۔ ان دنوں اسکول سے گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اور دوسری جماعت کے اس طالب علم کے پاس وقت بے شمار۔ چھٹیوں کے کام کا رجسٹر ” بھرنے” اور مغرب تک ،حسب ضرورت ہاکی اور کرکٹ "بھگتانے” کے بعد، رات کا کھانا کھا کر شام آٹھ بجے ٹی وی کے آگے آرام سے بیٹھا جا سکتا تھا۔ اعجاز بھائی کی جانب سے ،ہفتے میں ایک دن آٹھ بجے والا ٹی وی ڈارمہ دیکھنے کی پابندی، اسکول سے گرمیوں کی چھٹیوں کی بعد زرا نرم سی پڑ گئی تھی۔

اگر میں بھول نہیں رہا تو دیواریں، عبدالقار جونیجو نے تحریر کیا تھا اور اسے پی ٹی وی کراچی کے مشہور پروڈیوسر ہارون رند نے پیش کیا تھا۔ دیواریں میں اداکار نور محمد لاشاری، ساقی، سکینہ سموں، شہناز سومرو، فرید نواز بلوچ اور منصور بلوچ نے لازوال اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اوپر ذکر کیا گیا ہاشم خان کا کردار منصور بلوچ نے نبھایا تھا۔ ہاشم خان کا کردار مختلف ” شیڈ” لئے ہو ئے تھا جس میں منصور بلوچ نے اپنی شاندار پرفارمنس کے باعث رنگ بھر دیئے تھے۔ دیواریں سندھ کے وڈیرہ شاہی نظام اور فرسودہ رسم و رواج میں جکڑے ہو ئے معاشرے کی کہانی تھی جس نے ملک میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔

ڈرامہ سیریل دیواریں کی تیرھیوں قسط کا ایک سین میں آج تک نہیں بھولا۔ ڈرامے کی بارہ قسطوں میں مسلسل ہتھے سے اکھڑا رہنے اور ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے والا ہاشم خان، رانی سے شادی کے چند ماہ بعد گاوں کے ہوٹل پر چائے پینے آتا ہے تو وہاں موجود ” مکھن خان ” ( ڈرامے کا ایک منفی کردار ) اس پر فقرے اچھالتے ہو ئے اسے بے غیرت ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔ آخرکار برداشت کی حد گزرنے پر ہاشم خان، ہاتھ میں کلہاڑی اٹھائے، مھکن خان اور اسکے حواری پر حملے کے لئے آگے بڑھتا ہے تو ایسے میں ” بیک گراونڈ ” سے اس کی بیوی رانی کی آواز آتی ہے۔ ” نہیں ! ہاشم، نہیں !۔ خدا کے واسطے کسی سے جھگڑا مت کرو، تمہیں کچھ ہوگیا تو میرا کیا بنے گا؟”۔ ہاشم یہ آواز سنتے ہی رک جاتا ہے اور مکھن خان کو وہیں چھوڑ کر ہوٹل سے چلا جاتا ہے۔

ڈرامے کے اگلے سین میں رانی، ہاشم خان سے پوچھتی ہے کہ وہ پریشان کیوں ہے؟ ہاشم خان بتاتا ہے کہ اسے ہوٹل پر مکھن خان نے بے غیرتی کا طعنہ مارا مگر زندگی میں پہلا موقع تھا جب وہ لفظوں کا وار سہہ کر پی گیا۔ اس سمجھ نہیں آرہا کہ مکھن خان آج زندہ کیوں اور کیسے بچ گیا؟۔ جس پر اسے رانی ایک قدیم کہاوت سناتی ہے ” بندہ، شادی کے بعد آدھی ہمت چھوڑ دیتا ہے اورجب اولاد ہوتی ہے تو پوری ہمت چھوڑ دیتا ہے”۔

یہ پی ٹی وی کے سنہرے دن تھے جب ہفتے کے ساتوں دن شام آٹھ بجے گلیاں اور بازار ویران ہوجایا کرتے تھے۔ نوے کی دہائی میں پی ٹی وی کی کمرشل ازم سے ” شادی” ہوگئی تو اس نے ” آدھی ہمت ” چھوڑ دی۔ 21 ویں صدی میں، وطن عزیز میں، پرائیویٹ ٹی وی چینلز ،پی ٹی وی کی ” اولاد ” بن کر سامنے آئے تو پی ٹی وی کی بچ رہنے والی ” باقی ہمت ” بھی جواب دے گئی۔ اور یوں پاکستان ٹیل ویژن جو کبھی باز تھا، چڑیا کی طرح کمزور کئی پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو تو اپنے پنجوں میں لے کر ان کی کامیاب اڑان کا باعث بنا مگر خود اپنی اڑان بھول گیا۔ ( جاری ہے )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے