تاریخ کے کسی اہم ووراہے پر فیصلہ کن لمحہ دراصل کسی قوم کے اندر موجود حالات پر اثر انداز ہونے والی مختلف قوّتوں اور حلقوں کا امتحان ہوتا ہے ۔ اُنہی کے فیصلے مستقبل کی راہ متعیّن کرتے ہیں اور ان فیصلوں کے اثرات طویل عرصے تک ظاہر ہوتے ہیں۔ ۱۹۷۰ کے الیکشن کا دور نگاہوں میں گھوما تو ہمارے سیاست سے وابستہ دین دار حلقے کی اقامتِ دین کے حوالے سے ترجیحات کی کمزوریاں عیاں ہوئیں۔
علمائے کرام کی جو عزّت عوام میں اور جو اثر و رسوخ رائے عامّہ پر ہے و ہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔کسی بھی دور کے علماء کی علمیت اور کردار کی آپ تعریف کیئے بغیر نہیں رہیں گے اور نہ یہاں ایسا کوئی مقصد ہے کہ بحیثیتِ مجموعی علماء پر یا کسی کی ذات پر کوئی کیچڑ اچھالا جائے۔ ہمارا مقصدپاکستان میں سیاست میں براہِ راست مصروف علماء کے کردار کا ایک جائزہ لینا ہے کہ نفاذ اسلام کے حوالے سے یہ کس حد تک بے غرضی سے مخلص تھے اور ہیں اور انکی نظر میں نفاذِ اسلام اور مسلکی اختلافِ رائے میں کس کی فوقیت رہی ہے اور یہ کس حد تک معاشرے کو اسلامی اقدار کا حامل بناسکے ہیں۔
سال ۱۹۷۰ کے انتخابات کا اس حوالے سے جائزہ اس لیئے ضروری ہے کہ اسکے نتیجے میں ملک دو لخت ہوا۔ ۴۵ سال کا عرصہ کسی اہم دوراہے پر ایک مخصوص حلقے کے کسی فیصلے یا مخصوس طرز عمل کے بارے میں اس کی افادیت یا مضمرات کو بخوبی عیاں کرسکتا ہے۔ یہ خود احتسابی ہمیں موجودہ یا آئندہ دور میں ایسے ہی کسی اہم موقع پر فیصلے کی گھڑی میں تاریخ کے حوالے سے ایک طرح کی مستند رہنمائی بھی فراہم کرےگی۔
لہٰذا تاریخ سے کچھ سیکھنے کے لیئے ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے کرام کی اُن ترجیحات اور ذہنی وسعت کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے جو وہ سیاست اور اپنے دور کی جدید نظریاتی تحریکوں کے حوالے سے رکھتے رہے ہیں۔ مزید یہ کہ تاریخی حقائق سے اس کا اندازہ بھی کیا جاسکے گا کہ سیاست میں براہِ راست حصہّ لینے سے انکے احترام پر کیا اثرات ہوئے ، یعنی بحیثیتِ مجموعی سیاسی علماء نے کیا کھویا اور کیا پایا اور عوام میں انکا کیا تاثّر ابھرا ۔
آیئے اس اہم دوراہے کا انتہائی مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔ ایّوب خان کے دور میں دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام میں ایک سرد جنگ جاری تھی۔ امریکہ اور روس پوری دنیا میں اپنے اثرورسوخ کے لیئے نبرد آزما تھے اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔ یہ ایک عظیم معرکہ تھا جو دنیا میں ہر سطح پر ایک محاز آرائی کو برپا کیئے ہوئے تھا۔ امریکہ اور روس کی پوری دنیا میں غلبے کی سیاسی کشمکش جاری تھی جس میں چین بھی متحرّک تھا۔ اسی دوران پاکستان میں سیاسی ہلچل مچی اور ایّوب خان عنانِ اقتدار یحییٰ خان کو دے چلے۔ یحییٰ خان نے الیکشن کا اعلان کیا تو پاکستان میں بھی دنیا میں جاری امریکی اور روسی پراکسی جنگ کے تئیں سوشلزم کا نعرہ لگا تو لیکن پاکستان کی مسلّم اسلامی حیثیت کے تئیں احتیاطاً اسلام کی نقاب پہناکر ، یعنی اسلامی سوشلزم! تعلیمی اداروں میں لینن ، مارکس اور ماؤزے تنگ کے افکار کا سیلاب امڈ آیا اور جماعتِ اسلامی کی ذیلی طلبہ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ خم ٹھونک کر روس اور چین نواز نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے خلاف صف آرا ہوئی۔ اُن حالات میں یہی وہ دوراہا تھا جہاں پاکستان کے مستقبل کی صورت گری کا فیصلہ عوام کو کرنا تھا۔
کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے ٹکراؤ میں سوشلزم کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تعارف ایک دلیرانہ اورسوچا سمجھا قدم تھا ۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ بھٹّو صاحب سوشلسٹ نہیں تھے بلکہ موقع شناس تھے اور دنیا کے حالات سے فائدہ اٹھاکر اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ دوسری طرف پاکستانی سوشلسٹوں نے ان کو گھیر لیا کیونکہ وہ انکے مسیحا بن کر آئے تھے۔ اس اہم موقع پر اس دور کے علماء عموماً صرف مساجد اور خانقاہوں تک محدود تھے اور قومی سطح پر سیاسی اور معاشرتی طور پر نہ متحرّک تھے اور نہ ہی مختلف طبقاتی سطحوں پر انکا کوئی قابل ذکر اثر تھا۔ بظاہر اُس وقت کے علماء دنیا میں جاری نظریاتی جنگ سے جو امریکہ اور روس میں جاری تھی عملی طور پر لاتعلّق تھے اسی لیئے اشتراکیت سے مقابلے کا کوئی مربوط پروگرام بھی انکے پاس نہیں تھا۔ ہاں مگر ایک استفسار پر تمام جیّد علمائے کرام نے سوشلزم کو خلافِ اسلام بلکہ کفرضرور قرار دیا۔
لادینی اور لبرل عناصر کے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو تبدیل کرنے کے عزائم کے خلاف جماعت اسلامی کے علاوہ پاکستان میں کسی بھی عوامی حلقے کے پاس سوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی جامع پلاننگ نہیں تھی۔ جماعت اپنی زبردست تنظیم اور ڈسپلن کے ساتھ ہر شعبے میں انتہائی منظم تھی۔ دوسری طرف یہی تاریخی حقیقت ہے کہ علماء اپنے عقائد، مسلک اور فرقے کے محدود دائرے میں ہی اصلاح کا کام کرتے رہے اور ایک دوسرے پر حسبِ روایت تنقید بھی لیکن کسی بھی فورم پر علماء متّحد ہو کرنہ اس فتنے کے خلاف صف آرا ہوئے نہ ہی عوام کی توجّہ دہریت اور اشتراکیت کے خطرے کی طرف اس شدت سے دلائی جسکا یہ متقاضی تھا۔ پاکستان کی نظریاتی اساس پر اس حملے کی سنگینی کا احساس اس حلقے میں مفقود نظر آیا۔ وجہ اسکی یہی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ خود اس معاملے کی سنگینی اور اسکے دور رس اثرات سے بے بہرہ تھے۔
اسی دوران مشرقی پاکستان کے مولانا بھاشانی نے ایک جارحانہ اعلان کیا کہ وہ یکم جون ۱۹۷۰ سے اشتراکی انقلاب کی ابتداء کریں گے توایسے وقت میں علمائے کرام نے نہیں بلکہ جماعتِ اسلامی نے اُس سے ایک دن قبل یعنی ۳۱ مئی ۱۹۷۰ کو یومِِ شوکت اسلام منانے کا اعلان کیا۔ یہ عوامی سطح پر لادینیت، اشتراکیت اور سوشلزم کو پہلی للکار تھی جس میں عوام کو اسلام سے یکجہتی کے اظہار کی دعوت دی گئی تھی۔ ۳۱ مئی ۱۹۷۰کو صبح ہوتے ہی پاکستان کے طول و عرض سے عوام کا جمّ ِ غفیر نکل پڑا اور ڈھاکہ سے چٹاگانگ و کھلنا اورکراچی سے لاہور اور کوئٹہ سے پشاور تک ہر شہر میں اسلامی نظام کے حق میں عظیم الشّان مظاہرے ہوئے اور پاکستان کا مطلب کیا ! لا الہٰ الِّاللہ ! کے نعروں نے اشتراکی اور لبرل حلقوں میں سراسیمگی کی لہر دوڑادی۔
اس مظاہرے نے جماعت کو غیر معمولی خود اعتمادی اور اہمیت تو دی لیکن دوسری طرف کچھ سوئی ہوئی آنکھیں بھی کھُل گئیں ، کچھ سیاسی ماتھوں پر شکنیں آئیں اور کچھ مذہبی حلقوں کی بھویں بھی تن گئیں کہ مولانا مودودی کی جماعت تنہا اتنا بڑا کام کیسے کر گذری ۔
بس یہیں سے وہ داستان شروع ہوتی ہے جس نے پاکستان کو ایسی راہ پر ڈال دیا کہ جس پر ہم آج بھی بھٹک رہے ہیں یعنی ہماری نظریاتی پہچان کو دھندلا دیا گیاہے۔ یومِ شوکتِ اسلام کی زبردست کامیابی سے اشتراکی اور لبرل حلقوں کو عوام کے موڈ کا اندازہ ہوگیا تھا اور وہ جان گئے تھے کہ اس طوفان کے آگے بند باندھنا ان کے بس میں نہیں۔۔۔۔
پھر کہیں ایک نیا پلان بنا۔۔۔ ۔
کچھ لوگوں نے چند علماء کو اکسایا تو کچھ فرقہ پرستی و مسلکی بنیاد پر اورکچھ دوسرے اپنی عقل کے تئیں یا حسد یا علمی اختلافات کے بموجب خم ٹھونک کے جماعتِ اسلامی کے مقابلے پر آگئے ۔ وہ وقت علماء کرام کی اقامتِ دین کے حوالے سے ترجیح کا امتحان تھا لیکن فرقہ پرستی کے زیرِ اثر محدودسوچ اور نفاذِ اسلام کے حوالے سے دور اندیشی کے فقدان نے کچھ مذہبی رہنماؤں کو ایسی راہ پر ڈال دیا جس نے امّت کو پارہ پارہ کرکے راہ سے بھٹکا دیا ۔ وہ نادانستگی میں لبرل اور سوشلسٹوں کے معاون اور اسلام کے نادان دوست بن گئے۔ بد قسمتی سے رائے عامّہ پر اثر انداز ہونے والے اور فیصلہ کن رائے کے حامل علماء اپنے مسلکی اختلافات کو پسِ پشت نہ ڈال سکے اور منبر کی اثر انگیز طاقت پاکستان کے ہر قابلِ ذکر شعبے میں موجود ابھرتے اور قوّت پکڑتے اسلام پسندوں کی راہ میں آن کھڑی ہوئی۔
اسی زمانے میں جمیعتِ علمائے پاکستان منظرِ عام پر آئی اور "جنّت کی چابی ” کے نشان کے ساتھ بریلویوں کی لیڈر بن کر صف آرا ہوئی اور جمیعتِ علمائے اسلام وغیرہ بھی کچھ فقہئی او ر علمی اختلافات کے تئیں دوسری طرف مقابل ہی رہی ۔ جماعت اسلامی کے خلاف مہم میں وہی پرانے نکات تھے کہ یہ مزار کو نہیں مانتے، درود کو نہیں مانتے، یہ کافر ہیں، یہ صحابہ پر تنقید کرتے ہیں، جھوٹ بولنے کو جائز کہتے ہیں انکے پیچھے نماز جائز نہیں وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ ان مذہبی معاملات اور عقائد میں عام مسلمان ہمیشہ حسّاس رہے ہیں لہٰذا رفتہ رفتہ رائے عامّہ تبدیل ہونی شروع ہوئی۔ جماعت کی صفائیاں کام نہ آئیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گو کہ ان علماء کا دائرۂ اثر دینی طلبہ اور متعلقہ حلقوں تک ہی محدود تھا مگر منبر کی موثر قوّت انکے پاس تھی جو عوامی سطح پرجماعتِ اسلامی کے خلاف استعمال کی گئی۔ یہ اب ہماری تاریخ کا دل فگار حصّہ ہے۔
دوسری طرف اشتراکی اور لبرل عناصر بھی بھٹّو صاحب کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنی اصل دشمن جماعت اسلامی پر حملہ آور ہوئے اور اسکو امریکی اور سرمایہ داروں کی ایجنٹ قرار دیا۔ مرحوم مولانا کوثر نیازی پیپلز پارٹی کی طرف سے انتہائی عامیانہ اور اخلاق سے گری مہم کے سرخیل تھے۔ یہ اس حد تک گر گئے کہ انکے اخبار میں بدنام اداکاراؤں اور فاحشاؤں کی ناچتی تصاویر پر مودودی صاحب کا چہرہ لگا کر کردار کشی کی گئی۔ مشرقی پاکستان میں اشتراکی عناصر مولانا بھاشانی اور مجیب کی قیادت میں بھی جماعت کو امریکی ایجنٹ قرار دیتے رہے جو اس وقت ایک گالی تھی۔ اسطرح جماعت اسلامی پر چاروں طرف سے یلغار ہوئی جسکا اسنے تنہا مقابلہ کیا۔ جماعت اسلامی بھی یوم شوکتِ اسلام کے سحر میں گرفتار رہی اور قدموں کے نیچے سرکتے قالین کا ادراک نہیں کرپائی۔ اخبارات و رسائل میں مولانا مودودی کے خلاف ایسی مہم چلائی گئی کہ اسکی مثال ملنی مشکل ہے ۔ اُس زبردست پروپیگنڈا مہم نے جو بیک وقت منبر اور پرنٹ میڈیا پر جاری تھی رفتہ رفتہ جماعت کا منفی تاثّر گہرا کیاجس کے اثرات آج بھی نظر آتے ہیں کہ جماعت کو کچھ حلقے اچھوت سمجھتے ہیں۔
عوام کی نظر وں میں اسلامی نظام کے داعی کو ہی متنازعہ بنادیا گیا تو لوگ دین کو چھوڑ کر روٹی کپڑا اور مکان کے سوشلسٹ سراب کی طرف پلٹ گئے اور مشرقی پاکستان میں مجیب کے حامی چھ نکات اور سوشلزم کی طرف عوام کو راغب کر گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کے جماعت الیکشن میں بری طرح ہاری اور سیاسی علماء کی پارٹیاں بھی اسلامی نظام کا حامی ووٹ تقسیم کرکے محدود کامیابی ہی حاصل کرسکیں۔
مگراخبارات نے سرخی لگائی کہ ۔۔۔۔ پاکستان کے عوام نے سوشلزم کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
جماعت اسلامی کی جدو جہد پر یہ شعر صادق آیا کہ۔۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی۔۔۔۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اشتراکی عناصر نے روس کے اشارے پر پاکستان میں تمام اداروں میں اپنی تنظیمیں بنائی ہوئی تھیں خاص طور پر مزدوروں، طلباء، کسان، صحافت اور وکلاء میں۔ انکے مقابل یہ صرف جماعت اسلامی تھی جس نے متوازی تنظیمیں بنائی تھیں اور ہر سطح پر انکے مقابل تھی۔ یہ ایک بڑا کام تھا جو اسلامی حلقوں کی سرد مہری کا شکار ہوا۔ امریکی ایجنٹ کے الزام کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس وقت ایک پراکسی جنگ پاکستان میں جاری تھی تو شاید جماعت نفاذِ دین کے لئے اس کو اپنے مقصد کے حصول کے لیئے استعمال کر رہی ہوگی کیونکہ آئندہ کے واقعات اس کے کسی کا ایجنٹ ہونے کے الزام کی صاف تردید کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس بعد میں تمام اشتراکی اور لبرل عناصر روس کے ٹوٹنے کے بعد خود امریکی گود میں جا بیٹھے!
بدقسمتی سے سیاسی علمائے کرام نے یہ نہ سوچا کہ اگر ایک ایسی نیم مذہبی پارٹی انتخاب میں کامیاب ہوتی جس کے کارکن زندگی کے ہر شعبے میں موجود تھے تو اسلامی نظام کے نفاذ میں آسانی ہوتی۔ علماء نے ایک نیم دینی عوامی سیاسی جماعت کے مقابلے میں بالواسطہ لبرل اور اشتراکیوں کی مدد کی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ اس وقت سے آج تک ملک میں نہ ہی علماءِ کرام اسلام کے حوالے سے عوام کو سیاسی طور پرمتحرّک کرسکے اور نہ کوئی اور سیاسی جماعت۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اُس وقت سرحد میں ان علماء نے پیپلز پارٹی کی حمایت سے حکومت بنائی ۔ اک طرُفہ تماشا یہ بھی ہوا کہ بعد میں یہی علماء جماعتِ اسلامی کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اسٹیج پر کھڑے بھی ہوئے، ایک ساتھ نماز بھی پڑھی اور انتخاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کرتے رہے!
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے عوام اسلام کا نظام عدل چاہتے ہیں اسی جذبے کی جب مناسب تسکین نہ ہوئی اور لبرل، نام نہاد سوشلسٹ اور دنیا دار لیڈر عوام کو بیوقوف بناتے رہے تو اسکا نتیجہ ایک طرح کی فرسٹریشن پیدا کرنے لگا اورراسخ العقیدہ مسلمانوں میں انتہا پسندانہ خیالات جڑ پکڑنے لگے۔ علماء کے سیاست میں حد سے زیادہ ملوّث ہونے اور سیاسی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے سے بگاڑ پیدا ہوئے اور مدرسے کے طلباء براہِ راست ان معاملات میں دخیل ہوئے جنکا تعلیم سے دور کا بھی تعلّق نہیں تھا۔
آج سیاسی علماء اپنا غیر متنازعہ مقام گنواچکے ہیں اور لبرل اور سیکولر حضرات سیاسی علماء کی تضحیک کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے بلکہ ان پر مالی بدعنوانیوں کا الزام لگاکر اسلام کو بالواسطہ مطعون کرتے اور انپر تنقیدکی آڑ میں مذہب کے خلاف دیدہ دلیری سے لکھتے ہیں۔ اس وقت ملک میں جو سنگین صورتحال ہے اسکی جڑیں دیگر عوامل کے علاوہ ۱۹۷۰ کے الیکشن میں علماء کے کردار سے بھی بہت حد تک جُڑی ہیں کیونکہ تاریخ کے اہم موڑ پر کسی رخ کا انتخاب اگر دور اندیشی سے نہ کیا جائے تو آنے والے مصائب کی ذمّہ داری کسی نہ کسی حد تک ان اصحاب پر ضرور ہوگی جن کے ہاتھ میں فیصلہ کرنے کے اختیار تھے۔
آج ملک میں ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت انسانی حقوق اور شخصی آزادی کے مغربی اُصولوں پر عمل درآمد کے ذریعے ایک بے حیا معاشرے کی طرف خرامہ پیش قدمی اور میڈیا کے ذریعے عوام اور خواص کی برین واشنگ جاری ہے ۔ ڈراموں اور اشتہارات کے بموجب پاکستانی خواتین اور مرد اب نیم عریاں مغربی لباس اور روایات کو ذہناً قبول کرنے لگے ہیں۔ ہم اپنی اقدار کو کھوتے جارہے ہیں۔
کیا اس صورتحال کے ہما رے سیاسی علماء بھی کسی حد تک ذمّے دار نہیں ہیں ؟ ذرا سوچیئے!
علماء کا اصل کام اُمّت کی رہنمائی ہے جو زیادہ اہم ہے ، اسی لیئے مسلمانوں کی تاریخ میں علماء کی حکومت نہیں نظر آتی۔ اگر ۱۹۷۰ کے الیکشن میں ہمارے علماء بالغ نظری کا ثبوت دیتے اور مسلک و فرقے کے دائرے سے نکل کر اُمّت کی فلاح کی خاطر نیم مذہبی جماعت اسلامی کی پشت پر اسلام کے عظیم تر مفاد میں کھڑے ہوجاتے یا تعاون کی کوئی راہ نکال لیتے تو آج پاکستان کی ایک دوسری تاریخ ہوتی، نہ پاکستان دو لخت ہوتا اور نہ ہی یہاں دہشت گردی اور بے حیائی کا عفریت اٹھتا اور شاید یہ ایک اسلامی فلاحی ریاست بن چکا ہوتا۔ افسوس اسلامی قوّتیں آج بھی منتشر ہیں۔
لیکن آج پھر تاریخ ایک نئے موڑ پر ان علماء کے امتحان کے لیئے آکھڑی ہوئی ہے ۔ اس وقت پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ایک منظّم مہم چلی ہوئی ہے اور صرف تبلیغی جماعت ایسی قوّت ہے جو بین الاقوامی سطح پر اسلام کا اصلی اور نرم چہرہ ہے۔ اس کی بے مثال کامیابیوں کی وجہ سے اب طاغوت اسکے دائرہ کار کو محدود کرنے اور اسکو بھی بدنام کرنے پر کمر بستہ ہوا ہے۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماءِ کرام کو اسلام کے دسیع تر مفاد میں یک زبان ہوکر اسکی پشت پناہی کرنی چاہیئے تاکہ کوئی بھی حلقہ اسکو گزند نہ پہنچا سکے۔ اس وقت یہ مسلمانوں کی میراث ہے جسکی حفاظت کرنی ہوگی ورنہ اللہ اپنے دین کی حفاظت تو کریگا ہی مگر بہت سے لوگ اپنے نامۂ اعمال میں جانے کیا لکھوا لیں گے۔
کیا علما کو سیاست سے علیحدہ ہوکر ایک پریشر گروپ نہیں بننا چاہیئے۔
کیا موجودہ دور کے علماء ماضی کی غلطی پھر دہرائیں گے؟
کیا اب بھی اپنے مسلکی اور عقیدے کے مفاد میں مقیّد رہیں گے؟
کیا یہ اسلام کے عظیم تر مفاد میں اپنے معمولی اختلافات کو پسِ پشت ڈال سکتے ہیں؟
حالات یک بار پھر ایک امتحان لیئے آ کھڑے ہوئے ہیں ۔
تاریخ کا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیا جاتا۔
کیا ہم اس کو جھٹلا سکیں گے؟
نوٹ:اگر آپ کو اس مضمون کے مندرجات سے کلی یا جزوی طور پر اختلاف ہے تو اپنی مدلل تحریر آپ ہمیں بھیج سکتے ہیں ۔ادارہ آئی بی سی اردو اسے خوشی کے ساتھ شائع کرے گا ۔