کراچی…….حکومت کی طرف سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکالے جانے کے بعد پرویز مشرف ایمرٹس ائرلائن میں صبح تین بج کر 55 منٹ پر دبئی کیلئے روانہ ہو گئے ۔وہ اپنے قریبی دوست طارق محمود کے ساتھ بزنس کلاس کے کیبن ون میں سفر کے لیے سوار ہوئے ۔
طارق محمود کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے ۔وہ جنرل پرویز مشرف کے سب سے وفادار، پرانے اور بااعتماد گن مین ہیں ، ان کا تعلق چکوال سے ہے ۔
پولیس اور رینجرز کی 12 گاڑیوں کا خصوصی دستہ میں پورے اعزاز کے ساتھ گھر سے ائیر پورٹ پہنچا تاہم اس پروٹوکول کے ائیر پورٹ پہنچنے سے پہلے ہی پرویز مشرف جہاز میں بیٹھ چکے تھےاور یہ پروٹوکول صرف میڈیا کو دھوکا دینے کے لیے تھے ۔
ان کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا ان کے باہر نکلنے کا انتظار ہی کر تا رہا ۔
پرویز مشرف اپنی رہائش کے بجائے کسی اور مقام سے ائیر پورٹ پہنچے،انہوں نے پاکستان سے نکلنے کے لیے بھی کمانڈو ایکشن کیا۔ائیر پورٹ پہنچ کر وہ اس راستے سے جہاز کی طرف گئے جس راستے سے ائیر پورٹ پر صفائی یا ٹیکنیکل کام کرنے والا عملہ جاتا ہے ۔
اے آر وائی نیوز کے اینکر وسیم بادامی اور جیو نیوز کے نمائندے افضل ندیم ڈوگر نے خود ان سے ملاقات کی کیونکہ وہ بھی دبئی کا سفر کررہے تھے ۔
پرویز مشرف نے تصویر بنانے اور بات کرنے سے روک دیا ۔ پرویز مشرف نے ہاتھ ملایا اور فقط اتنا کہا کہ ” آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟
افضل ندیم ڈوگر کے مطابق پرویز مشرف نے کوئی بیلٹ نہیں پہنا ہوا تھا ۔ان کی صحت بالکل ٹھیک تھی ، وہ پشاش بشاش تھے اور اپنے دوست طارق محمود کے ساتھ چل کر جہاز میں سوار ہوئے ۔
ان کی روانگی سے قبل گورنر سندھ داکٹر عشرت العباد خان نے جنرل ر پرویز مشرف سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان کی خیریت دریافت کی ۔
پرویز مشرف کے ذاتی معالج بھی دبئی پہنچ گئے ہیں۔
پرویز مشرف مارچ 2013 میں پاکستان آئے تھے اور ٹھیک تین سال بعد مارچ 2016 میں ہی پاکستان سے چلے گئے ۔
ان پر پاکستان میں اکبر بگٹی قتل کیس ،بے نظیر قتل کیس ، لال مسجد کیس ، آئین سے بغاوت کا کیس تھا ۔
اس دوران انہوں نے اکبر بگٹی اور لا ل مسجد انتظامیہ کو پیسے دیکر معاملہ سیٹ کرنے کی آفر بھی کی تھی ۔تاہم فریقین کے انکار کر دیا ۔
وہ راولپنڈی کی کمرہ عدالت سے فرار اختیار کر گئے تھے جب عدالت نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا گیا تھا، پھر کبھی بھی عدالت کا راستہ نہیں دیکھا ۔
ایک بار اسلام آباد کچہری میں پیش ہونے کے لیے وہ گھر سے نکلے لیکن راستے میں دل کا مرض بتا کر سیدے سی ایم ایچ راولپنڈی جا پہنچے ۔
ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیاگیاتھا تاہم عدالتی کاروائی کے نتیجے میں ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا ۔
پرویز مشرف نے تین سال پاکستان ایک طرح قیدی کی حیثیت سے گزارے ۔ اس دوران وہ پارٹی کو منظم کر سکے اور ناہی سیاست میں کوئی کردار ادا کرسکے۔ سیاست دان بننے کی خواہش دل میں لیکر پاکستان پہنچنے والے صدر مشرف اپنے مقصد میں ناکامی کے بعد لوٹ گئے ۔
پرویز مشرف نے وطن واپس آکر عدالتوں کا سامنا کرنے کی یقین دھانی کرائی ہے تاہم پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کو باہر بھجوانے پر سخت تنقید کی ہے ۔
بلاول بھٹو زرداری نے نواز حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کی وردی ختم کی ، زرداری نے ان کی صدرات ختم کرائی لیکن نواز شریف نے انہیں پاکستان سے بھگا دیا ۔
آصفہ زرداری نے کہا کہ ہم کب عدالتوں کا سامنا کرانے کے بجائے عدالتوں سے بھاگتے رہیں گے ۔