موجودہ صورتحال میں گورنمنٹ کی یہ پالیسی کہ بجلی اسی کو دیجائے گی جو پیسہ دے گااور بجلی چوروں کو سزا دی جائے گی مناسب ہے۔ لیکن یہ بھی مدّ ِ نظر رہے کہ بجلی اب بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ مزید یہ کہ دستیاب بجلی ایک قومی اثاثہ ہے جس پر پاکستان کے ہر شہری کا مساوی حق ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جتنی بھی بجلی دستیاب ہے اسکی تقسیم انصاف کی بنیاد پر ہو۔
کیا بجلی کی تقسیم انصاف کی بنیاد پر ہو رہی ہے؟
حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ کراچی میں کے-الیکٹرک نے غالباً اسی پالیسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بنیادی انسانی حق، انصاف، اسلامی بھائی چارہ اور انسان دوستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض نفع کمانے کے اُصول پر کراچی کو سپلائی اور ادائیگی کی بنیاد پر مختلف زون میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ جس میں اوّل وی آئی پی گرین زون ہے۔ جبکہ آخری معتوب زون وہ بد قسمت علاقہ ہوتا ہے جہاں پر بجلی کی چوری زیادہ ہوتی ہے لہٰذا وہاں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ ساڑھے سات گھنٹے تو سرکاری اور ایک سے دو گھنٹے تکنیکی ہوتا ہے۔
شہر کو مختلف زون میں بانٹنا اس لحاظ سے نامناسب ہے کہ اس کا مقصد عوام کو فائدہ پہچانے کےبجائے خود زیادہ منافع کمانا ہے۔
بجلی کی سپلائی مختلف زون کو وہاں سے مالی وصولی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ امراء کے علاقے جہاں سے ادائیگی پوری ہوتی ہے وہاں عموماً بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی یا برائے نام ہوتی ہے۔۔ کچی آبادیاں جن میں غریب اور پسماندہ طبقہ رہتا ہے وہ لوڈ شیڈنگ کا سب سے زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔ سب سے ستم زوہ علاقے وہ ہیں جو کچّی آبادیوں سے ملحق ہیں وہاں اس لیئے لوڈشیدنگ کی جاتی ہے تاکہ کُنڈوں کے ذریعے بجلی چوری نہ کی جاسکے۔ ان علاقوں میں زیادہ تر صارفین بجلی کے بل ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ کے -الیکٹرک کے سب سے زیادہ عتاب کے مستحق ٹہرتے ہیں۔
ایک طرف کے- الیکٹرک نے بجلی کی چوری روکنے کے لیئے پرانے تار تبدیل کرکے نئے کنسیلڈ تار لگانے شروع کردیئے تو دوسری طرف میٹر بھی گھر کے باہر منتقل کیئے جارہے ہیں مگر اکثر علاقوں میں یہ کام مکمّل ہونے کے باوجودلوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں ہوئی۔ پچھلے مہینوں میں کے-الیکٹرک کی طرف سے ٹی وی پر زور شور سے اعلانات ہوئے تھے کہ اب بجلی چوروں کو گرفتار کیا جائے گا اور سزا بھی دی جائے گی۔ لیکن سب پیالی میں طوفان ہی ثابت ہوا۔
[pullquote]-الیکٹرک کی ذمّہ داری :
[/pullquote]
سوال یہ ہے کہ وہ صارفین جو بجلی کا بل تو پورا دیتے ہیں لیکن مشتبہ زون میں رہتے ہیں انہیں بجلی سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے، ان تک بجلی پہچانا کمپنی کی اخلاقی ذمّہ داری ہے۔ ان کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک کس اخلاقی یا قانونی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔ کے-الیکٹرک کس بنیاد پر دوسروں کی چوری کی سزا بے گناہوں کو دے سکتی ہے۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ دھوبی پر بس نہ چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دیئے! کے -الیکٹرک قانون کی مدد اور وسائل کے ہوتے ہوئے بجلی چوروں کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتی؟ انکی بجلی منقطع کیوں نہیں کرتی؟
یہ اپنی اس ذمّہ داری میں کوتاہی کی سزا عام صارف کو کیوں دیتی ہے؟ ہے کوئی پوچھنے والا؟
مختلف زون بناکر اور بڑی تعداد میں ایماندار صارفین سے امتیازی سلوک کرکے کے -الیکٹرک کیا پیغام دے رہی ہے؟
کیا وی آئی پی زون طبقاتی نظام کی ایک شکل اور عام انسان کی توہین نہیں ہے؟
کیا یہ زون اسلامی بھائی چارے پر ضرب نہیں ہے؟
کیا یہ پاکستان کے ہر شہری کی دستیاب بجلی پر جائز حق کی نفی نہیں ہے؟
کچھ کو زیادہ اور کچھ کو کم دینا کسی کا حق غصب کرنا نہیں ہے؟
کیا اسطرح عوام کو تقسیم کرکے خود غرض نہیں بنایا جارہا؟
کے الیکٹرک اگر اپنی پیداوار کو پورے کراچی میں مساویانہ لوڈ شیڈنگ کے ذریعے تقسیم کرے تو یہ انصاف پر مبنی بات ہوگی، لیکن ایسا صرف اس وقت ہی ہوگا جب نفع کی حصول کی جگہ انسانی ہمدردی کا عنصر اور بنیادی انسانی حقوق کی ادائیگی کا جذبہ حاوی ہوگا۔
آپ گھوم پھر کر دیکھ لیں آپکو جگہ جگہ یہ وی آئی پی علاقے ملیں گے۔ کسی با اثر سیا ستدان یا کسی خاص شخصیت کی رہائش گاہ کا اطرافی علاقہ بھی لوڈ شیڈنگ میں چمکتا نظر آتا ہے۔
وی آئی پی زون میں تکنیکی خرابی بھی نہیں ہوتی جب کہ ملحق عتاب زدہ علاقے آئے دن تیکنکی فالٹ کا رگڑا بھی کھاتےہے۔
رمضان سے پہلے یہ خوشخبری دی گئی تھی صارفین کو سہولت دی جائے گی تو عوام النّاس نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ تکالیف میں کمی ہوگی لیکن ابھی حال یہ ہے کہ ، مثالاًصرف ایک علاقے میں جہاں تمام صارفین پورا بل ادا کرتے ہیں لیکن معتوب زون کے پڑوس کی وجہ سے اسکے اعزازی ممبر ہیں وہاں پر لوڈ شیدنگ کے اوقات اسطرح ہیں،
صبح سات سے ساڑھے نو،
ساڑھے گیارہ سے دو بجے،
ساڑھے تین سے پانچ بجے، اور
رات ایک سے دو یا کبھی ایک سے تین بجے۔ مختلف دورانیئے کے ٹیکنیکل فالٹ علیحدہ ہیں۔
اس شدید گرمی میں روزہ داروں کے ساتھ برتاؤ کا یہ عالم ہے کہ کب آرام کرے اور کب کام! جبکہ دوسری طرف وسیع علاقے لوڈ شیڈنگ سے مبرّا بھی ہیں۔ کیا عجب تماشا ہے۔ مزید تماشا یہ ہے کہ اس مذکورہ علاقے سے بالکل ملحق آبادی ایک بااثر کمیونٹی کی ہے جو لوڈ شیڈنگ کے سیاہ سمندر میں روشنی کے مینار کی طرح ہر وقت روشن رہتی ہے۔ یہ منظر مختلف کمیونٹی میں ذہنی دوری پیدا کرتا ہے۔
اس مثال سے آپ اندازہ لگائیں کہ کے- الیکٹرک اپنے نفع کی خاطر اپنے "اسٹار صارفین ” یعنی ہمیشہ وقت پر ادائیگی کرنے والے کے ساتھ بھی کتنی بے درد ہے۔
کیا ارباب اقتدار اور مقامی سیاسی لیڈران اس طرف توجّہ کریں گے۔
کون سا اسلامی اصول شہریوں میں تفریق کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
کون سا ملکی قانون اس طرز ِ عمل کی اجازت دیتا ہے۔
کیا کے -الیکٹرک اس غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور قانون سے ماوراء اپنی پالیسی کی کوئی منصفانہ توجیہہ پیش کرسکتی ہے۔
کے-الیکٹرک کی انتظامیہ اپنی ترقّی کے دعوے ببانگ ِ دہل کر رہی ہے لہٰذا رمضان کے مہینے میں ایک مبنی بر انصاف برتاؤ کے بجائے ایسی بے دردی کا مظاہرہ اسکے وقار کے منافی اور نا مناسب ہے۔
کے الیکٹرک کی انتظامیہ سے التماس ہےکہ کم از کم رمضان میں ہی اسلامی تعلیمات اور بھائی چارے کا احترام کرلیں اور اگر بجلی کم ہے تو سارے زونز میں یکساں لوڈشیڈنگ کریں تاکہ غریبوں کی تکالیف میں کچھ تو کمی ہو اور امیروں کو بھی انکا احساس ہو کیونکہ بڑے مکانات والے تو جنریٹر سے کام چلالیتے ہیں یا لان میں بیٹھ کر کھلی ہوا میں سانس لے سکتے ہیں لیکن ساٹھ ، اسّی یا چالیس مربّع گز مکان کے رہائشی اس دم گھونٹتے حبس میں کہاں جائیں ۔ ان کی تکالیف کا مداوا کریں۔
پورے شہر میں یکساں اوقات کی لوڈ شیڈنگ کے سلسلے میں ارباب اختیار کو بھی اپنی ذمّہ داریوں کا احساس ہونا چاہیئے۔