ڈاکٹر عرفان شہزاد
۔ ۔ ۔ ۔
حالیہ فوجی آپریشن سے طالبان کی کاروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ لیکن کیا اس بات کیا ضمانت دی جا سکتی ہے کہ شدت پسندی کی یہ آگ مکمل طور پر بجھ چکی ہے ، اور آیندہ سانحہ پشاور وغیرہ جیسے المیے دوبارہ نہیں ہوں گے۔ طالبان مارے تو جا رہے ہیں لیکن کیا وہ حالات اور ذہنیت بھی ختم کی جا رہی ہے جو طالبان بناتی ہے ۔
طالبان مسئلے کے علمی اور نظریاتی پہلوؤں پرمختلف فورمز پر تو آئے روز بات ہوتی رہتی ہے، لیکن اس مسئلے کے سماجی اور نفسیاتی پہلو پر کم ہی توجہ د ی گی ہے۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا اگر عملی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو اس کی جڑ طالبان کے سماجی اور نفسیاتی عوامل میں زیادہ ملے گی۔ان کا علمی نظریہ تواس کا ظاہری پیرہن ہے جس کے پردے میں یہ عوامل کارفرما ہیں۔
طالبان فدائی حملے کیوں کرتے ہیں ؟یہ اپنے ہم قوم افراد کو نشانہ کیوں بناتے ہیں ؟ اپنے ہم مذہب مسلمان قیدیوں کے گلے کیوں کاٹ ڈالتے ہیں؟ اس پر وہ اسلام اور خدا کا نام بھی لیتے اور خود کو خدا کا مددگار بھی سمجھتے ہیں۔ اس کا ایک سیدھا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ وہ مذہب کی ایک غلط تعبیر کا شکار ہیں ،مثلا وہ نفاذ اسلام کے لئے مسلح جدوجہد کودینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جمہوریت کو نظام کفر سمجھتے ہیں اور اس کے ماننے والے کو بھی کافر گردانتے ہیں ، اور چونکہ مسلمان اگر کفر کرے تو مرتد ہو جاتا ہے اس لیے فقہ کے مطابق واجب القتل ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس سے میرے نقطہ ء نظر کی تفہیم میں مدد ملے گی۔ ہم بحیثیت مسلمان دین پر ایمان رکھتے ہوئے بھی دین کے اہم ترین احکامات پر بھی عمل کرنے پرکتنا آمادہ نہیں ہوتے؟
ہمارا حال بقول غالب
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت اس طرف نہیں آتی
تو یہ بھی تو ممکن تھا کہ طالبان دین کی غلط تعبیر کے باوجود اس پر عمل پیرا نہ ہوتے۔ ہم مذہب کی واضح ترغیبات اور تہدیدات کے باوجود نماز تک نہیں پڑھ پاتے توایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ طالبان بھی اپنے اس نظرئیے کے باوجود اپنی جانیں قربان کرنے پر تل نہ جاتے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک لاابالی مسلمان نوجوان جو دین کی پرواہ نہیں کرتااچانک ہی پکا دین دار بن جاتا ہے۔ اس کی اس کایا پلٹ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی حادثے نے اس کی سوچ بدل دی یا کسی بات نے اس کے کسی احساس پر چوٹ کی اور اس کا رخ بدل گیا، وغیرہ۔ ایسا ہی کچھ طالبان کا معاملہ بھی ہے۔ یعنی نظریے کے ساتھ کچھ عوامل کا ہونا بھی ضروری ہے جو عمل پر آمادہ کر سکیں۔
نفاذ اسلام کے لیے طاقت کے استعما ل کا جواز تو حضرت امام حسین کے طرز عمل، امام زید کے خروج اور امام ابو حنیفہ کی امام زید کے لئے علمی اور اخلاقی حمایت(طالبان کی اکثریت حنفی ہے)، برصغیر میں شاہ ولی اللہ کا فک کل نظام کا نظریہ اور اس کے نتیجے میں سید احمد شہید کا تحریک مجاہدین، دوسری طرف عمر مختار، امام شامل، امام عبدالقادر الجزائری کی تحاریک جہاد اور جہاد افغانستان کی مثالیں اور دور حاضر میں مولانا مودودی کے حاکمانہ اسلام اور دیوبند کے نفاذ اسلام کے نظریات اور فتاوی کی شکل میں تو پہلے سے موجود رہا ہے لیکن ایسی صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی جو طالبان کی موجودہ پر تشدد تحریک کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔اس کے برپا ہونے میں محض اس علمی سرمائے کا دخل نہیں، تاہم اس نے ان کو اخلاقی سہولت مہیا کر دی ہے جس کی وجہ سے وہ اطمینان سے خود کش حملہ کرتے ہیں اپنی جان دیتے ہیں اور دوسروں کی جان لیتے ہیں۔تاہم، جب تک آپ کی نظر جب تک ان کے سماجی اور نفسیاتی عوامل پر نہیں ہوگی آپ ان کا مسئلہ سمجھ سکیں گے نہ اس کا کوئی پائدار حل تلاش کر پائیں گے۔
طالبان قبائلی دور میں جی رہے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی کوتاہی ہے کہ انھوں نے ان کو دور جدید سے آشنا نہیں کرایا، چناچہ وہ قبائلی دور کی نفسیات میں زندہ ہیں جس کا سمجھنا ہمارے لوگون کے لئے مشکل ہو گیا ہے۔ جیناتی لحاظ سے دیکھئے تو طالبان کی اکثریت پختون ہے اور یہ نسل زود طبیعت ہے۔ فوری ردعمل ان کا عمومی رویہ ہے۔ اس رویہ میں تبدیلی سماجی تبدیلیوں اور مثبت تعلیم سے ممکن تھی مگر بدقسمتی سے ان کا سماج صدیوں سے تبدیل نہیں ہوا اور تعلیم بھی انہیں وہ ملی جس نے ان میں ایسے نظریات پروان چڑھائے جن کا اوپر ذکر ہوا۔
قبائلی نفسیات شدید عدم تحفظ کی نفسیات ہوتی ہے۔ عدم تحفظ رد عمل کی نفسیات کو انگیخت کرتا ہے، رد عمل شعوری سے زیادہ جبلی ہو جاتا ہے ، مشہور نفسیات دان ایڈی تھامسن کے الفاظ میں جب سائے پر چور کا گمان ہو توحفظ ما تقدم کا تقاضا ہے کہ اس گمان پر ہی آپ سائے پر چھلانگ لگا دیں بجائے یہ کہ سایا آپ پر چھلانگ لگا دے (اگر واقعی وہ چور ہو تو)۔ عدم تحفظ کے اس احساس کے تحت وہ اپنی ثقافت سے باہر ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کی اعتماد سازی کی کوئی مربوط کوشش بھی نہیں کی گئی بلکہ ان کا اعتماد کئی بار مجروح کیا گیا واقفان حال یہ سب جانتے ہیں ۔ بہرحال، طالبان کا لڑنے مرنے کے لیے فورََا تیار ہو جانا اسی عدم تحفظ کی نفسیات کی وجہ سے ہے۔
خود شناختی انسان کی بنیادی نفسیاتی ضرورت ہے ۔ طالبان کو اپنی پہچان چاہیے تھی۔ پشتوعوامی شاعری میں اس طرح کے خیالات بھی مل جاتے ہیں جس میں شاعر اپنی قوم کو شرم دلاتے ہیں کہ پاکستان میں آج تک کوئی صدر اور وزیر اعظم ان کی قوم سے نہیں ہوا۔ حصول اقتدار کا جمہوری راستہ طویل بھی تھا اور ’جائز‘ بھی نہ تھا چناچہ نفاذ اسلام کے ایسے نظرئیے سے مدد لی گئی جو دین کی ‘خدمت’ بھی تھا اور حصول اقتدار کا راستہ بھی دکھاتا تھا۔
بدلے کی نفسیات قبائلی معاشرہ کی ایک اور نمایاں خصوصیت ہوتی ہے۔ مرکزی حکومت اور نظام انصاف کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والے عدم تحفظ کے احساس کے تحت خود حفاظتی کیانتظام کے لیے بدلے کا متبادل نظام ان کی ضرورت بن جا تا ہے۔ چناچہ یہ لوگ ہر قیمت پر اپنا بدلا لیتے ہیں ۔ گزشتہ ادوار میں جب امریکی ڈرون حملے ان پر کئے گئے تو آگے کی تمام کاروائیاں اسی بدلے کی نفسیات کے تحت عمل میں آئیں۔ بدلہ لینے کی شدت میں اسلامی قانون قصاص ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ آ پ اپنا جائزہ لے کر دیکھیں کہ اگر ہاتھا پائی کی نوبت آ جائے تو آ پ اس وقت اسلامی اخلاقیات سوچ رہے ہوتے ہیں یا اپنی ثقافت کے مطابق گالم گلوچ اور مار کٹائی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ چناچہ اگر آ پ ان قبائلیوں کے بچے ماریں گے تو یہ آپ کے بچے ماریں گے تاکہ آپ کو وہ دکھ ملے جو ان کو سہنا پڑا۔ اگر ان کی مسجد پر بم گرے گا تو وہ آ پ کو بھی مسجد میں ماریں گے۔ بدلے کی اس نفسیات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر آپ ان کے ساتھ احسان کر دیں یا ان سے دوستی کریں تو اسی شدت کے ساتھ آپ پر احسان کرٰیں گے اور دوستی نبھائیں گے۔
قبائلی تعصب بھی قبائلی معاشرے میں بقاکے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔اپنی قوم کے تحفظ کے لیے دوسروں کے نقصان کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ چناچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے ڈرون حملے بڑھتے گئے اور عام لوگ جن میں بے گناہ عورتیں ، بوڑھے اور معصوم بچے شامل تھے، مارے جانے لگے تو طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ اس لیے کہ ان کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہوتے چلے گئے جویا تو خوداس دکھ کا شکار ہوئے یا وہ اپنی قوم کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر ان کا بدلہ لینے اٹھ کھڑے ہوئے۔
طالبان مسئلے کو اس وقت تک حل کرنا ممکن نہیں ہوگا جب تک ان کی نفسیات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔ ایک ہمہ گیر اصلاحی پروگرام کی ضرورت ہے جس میں اصلاح پسند علماء ، سماجی اور عمرانی علوم کے ماہرین ، بالغ نظر سیاست دان، علاقائی معتبر شخصیات سب مل کر اس مسئلے کے تمام پہلووں کے عملی حل پیش کریں۔ یاد رکھیں فوجی آپریشن کے ذریعے،ہم نے اگر نفرت اور شدت کی بھڑکتی آگ کو دبا بھی لیا تو سلگتی چنگاریاں سلگتی رہیں گی۔ اور گھر کو آگ لگانے کے لیے ایک چنگاری بھی کافی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عرفان شہزاد نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹر کیا ہے جبکہ نمل اسلام آباد سے علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں ۔
ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع
A Study of Human Motives in the Light of the Holy Quran: A Psychoanalytical Perspective,
جس میں قرآنِ مجید ، علم النفس اور علم ِ بشریات (anthropology) کی روشنی میں انسانی رویوں کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور اسی پر مزید تحقیق جاری ہے۔
ڈاکٹر عرفان شہزاد کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ اور وہ گذشتہ 15 برس سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں ۔ قومی اور بین الاقوامی مجلات میں اب تک 8 مقالہ جات اور مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ وہ نمل کے تحقیقی وعلمی مجلہ البصیرہ کے انگریزی انگریزی سیکشن کی مجلسِ ادارت کا رکن ہیں ۔