فائزہ اسد
نیو یارک
۔ ۔ ۔
داعی عبداللہ امریکی شہرڈیٹرائٹ کے ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوا ۔ داعی نے 33 برس کی عمر میں چین میں تعلیم کے دوران اسلام قبول کر لیا ۔
ہم جنس پرستوں کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے داعی نے امام بننے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنے ہم خیال لوگوں کو مذہبی خدمات فراہم کرسکے۔ داعی نے ایڈز سے ہلاک ہونے والے ایک ہم جنس پرست کا جنازہ پڑھاکر اپنے فرائض کا آغاز کیا۔داعی عبداللہ نے کھلے عام ہم جنس پرستی کا اعتراف کیا ہے۔
داعی نے لائٹ آف ریفارم کے نام سے اپنی عبادت گاہ بھی قائم کررکھی ہے جہاں خواتین اور مرد اکٹھے نماز پڑھتے ہیں ۔
اس عبادت گاہ میں خواتین بھی جماعت کی امامت کراتی ہیں ۔
امریکا میں ڈاکٹر امینہ ودود نے 2005 میں بھی جماعت کی امامت کرائی تھی جس پر مسلمانوں کی جانب سے برا منایا گیا تھا ۔
داعی عبداللہ کو ہم جنس پرست ہونے پرامریکی مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا ہے ۔
آئی بی سی اردو سے گفت کر تے ہوئے امریکن مسلم کونسل کے رہ نما سجاد عباد الرحمان نے کہا کہ اسلام سمیت کسی مذہب میں بھی ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں اور داعی کا عمل نے مسلم معاشرے کے لیے شرمندگی کا سبب بن گیا ہے ۔
امریکہ نے حال ہی میں ہم جنس پرستوں کی شادی کے حوالے سے قانون منظور کیا ہے جس پر امریکا میں بھی قدامت پسند حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے ۔
پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر خوب تنقید کی جارہی ہے ۔
مسلمان کیمونٹی لیڈرز کا کہنا ہے کہ داعی کا عمل ایک انفرادی عمل ہے اور یہ کبھی بھی مسلمان معاشرے میں قبول نہیں کیا جائے گا ۔
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان اپنی معاشرتی اقدار سے متاثر ہو تے ہیں اور اسے ایک قدر کے طور مستحکم کر نے کے لیے کوشش بھی شروع کر دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر امینہ ودود اور داعی عبداللہ جیسے لوگ در اصل مشرقی اقدار میں مغربی پیوند کاری کرنا چاہ رہے ہیں ۔ ان کا یہ عمل اس معاشرے کے بنیادی تصوارت اور اقدار کی وجہ سے ذہنوں میں پیدا ہونے والی دوریوں کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ قطع نظر اس بحث کے کہ آیا وہ درست ہے یا غلط ،،
اس قسم کی کوششیں اعتراض کرنے والے بہت سے افراد کے منہ بند کر دیتی ہیں تاہم بحثیت قدر ان کی قبولیت نہیں ہوتی ۔
اب مغربی معاشروں میں کوئی ہم جنس پرستی اور عورتوں کی امامت سے متعلق سوال کرے گا تو مسلمان امینہ ودود اور داعی عبداللہ کو پیش کر کے کچھ لوگوں کا منہ بند کر سکتے ہیں تاہم خود ان دونوں کی مسلمان معاشرے میں حیثیت قابل قبول نہیں ہو گی ۔