انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ظالمانہ قوانین کی تنسیخ کرے جو انہی سکیورٹی فورسز کو تحفظ فراہم کرتی ہیں جن پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کا الزام ہے۔
اپنی ایک تازہ رپورٹ میں انسانی حقوق کی تنظیم نے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے واقعات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات پر بھی زور دیا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایفسپا کے نام سے سنہ 1990 میں علیحدگی پسند گروپوں کی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے لاگو کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون لوگوں کو مزید دور کرنے کا باعث بنا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں فوجیوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔
آرمڈ فورسز سپیشنل پاورز ایکٹ کے تحت فوجیوں کو مشتبہ شدت پسندوں کو گولی مارنے اور انھیں بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ان وسیع اختیارات کی وجہ سے اس غیر مستحکم خطے میں تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات میں ایک بھی فوجی پر سول عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا گیا ہے۔
ایمنسٹی کے گلوبل ڈائریکٹر منر پمپل کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ سنگین واقعات رونما ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ فوجیوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی طرف سے کی جانے والی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے بھارت نہ صرف اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اپنے آئین کی پاسداری بھی نہیں کر پایا ہے۔
رپورٹ میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو درج کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے ان خلاف ورزیوں پر حکومتی رد عمل نہ ہونے کی وجہ سے انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوئے ہیں۔
بھارتی حکومت کی طرف سے اس رپورٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔