اسلام آباد میں ایسا کام کہ روح تڑپ جائے

زارا قاضی
آئی بی سی اردو
اسلام آباد
۔ ۔ ۔

old

جھریوں زدہ چہرے، کانپتی آوازیں اور آنکھوں میں کسی اپنے سے ملنے کی آس لیے غلام احمد، محمد نواز، اللہ یار اورحامد علی سمیت کئی لوگ گریٹ ہوم کے رہائشی ہیں.  جی ہاں یہ کوئی اولڈ ہوم نہیں ہے کیونکہ اس کے سرپرست اعلیٰ زمرد خان کہتے ہیں کہ اولڈ کا مطلب پرانا ہوتا ہے مگر یہ پرانے نہیں بلکہ عظیم لوگ ہیں۔

کچھ ہی دن پہلے جب میرا گریٹ ہوم جانا ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ ماحول میں چھائی اداسی اس عمارت کی خوبصورتی پر حاوی تھی. مجھے ٹی وی لاوئچ میں بیٹھایا گیا کچھ ہی دیر میں ایک ایک کر کے مختلف عمروں کے بزرگ اپنے اپنے کمروں سے باہر آنے لگے. کھانستے للکھڑاتے ایک دوسرے کو سہارا دیتے یہ بےسہارا افراد ملک بھر کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے ہیں. ہر فرد اپنی کہانی سنانے کو بےقرار نظر آ رہا تھا. میں نے ان سےبات چیت شروع کی. سب کی الگ کہانی تھی سب کے اپنے اپنے دکھ تھے..

غلام احمد ان سب میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ ہیں جن کی عمر 93 سال ہے۔ لرزتے کانپتے ہاتھوں اور جھریوں زدہ چہرے والے بلک بلک کر روتے غلام احمد 5 جوان بیٹوں کے باپ ہیں مگر بدقسمت اولاد اپنے بوڑھے باپ کو گھر میں رکھنے کو تیار نہیں ہے۔ غلام احمد دن رات اپنے پرانے وقت کو یاد کرتے ہیں مگر پھر بھی اپنی اولاد کو کوسنے اور بددعائیں نہیں دیتے۔ کہتے ہیں بیٹے کیا کریں جب ان کی بیویاں ہی مجھے رکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اللہ ان کو اپنے گھر کا سکون دے اور مجھے موت دے دے میرے پاس جینے کا کوئی مقصد نہیں ہے زندگی کی اب کوئی امنگ باقی نہیں رہی.

محمد نواز بتانے لگے کہ وہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔۔ اسلام آباد کے پوش علاقے میں رہنے والی اولاد بوڑھے باپ سے بیزار ہے۔ محمد نواز سر جھکائے ندامت سے کہتے ہیں اولاد کا قصور نہیں میں بلڈ پریشر کا مریض ہوں کبھی بہت غصہ آ جاتا ہے تو وہ جوان اولاد مجھے کیسے برداشت کرے۔ پہلے میں ایک فلیٹ میں شفٹ ہو گیا تھا مگر پھر تنہائی نے ڈپریشن کا مریض بنا دیا مجھے کسی نے گریٹ ہوم کے بارے میں بتایا تو ادھر آ گیا ان ساتھیوں کے ساتھ اچھا وقت گزر رہا ہے۔ سارا دن قرآن پڑھتے ساتھیوں سے باتیں کرتے گزر جاتا ہے۔ چونکہ رمضان شریف ہے تو وہ سوئیٹ ہوم میں رہنے والے بے سہارا بچوں کے لیے عید کی تیاریوں میں بھی مصروف ہیں۔ سوئیٹ ہوم کے بچوں کے لیے مختلف کھانے پینے کی چیزوں اور عید کے گفٹس کی پیکنگ کرتے وہ بے انتہا خوش دکھائی دئیے.

میں نے مڑ کر دیکھا تو سامنے ماسٹر اللہ یار کھڑے تھے ۔ماسٹر اللہ یار 72 سالہ بزرگ ہیں۔ سرکاری سکول سے بطور ماسٹر ریٹائرڈ اللہ یار اولاد نرینہ سے محروم ہیں۔ ان کی اکلوتی بیٹی کی شادی بھی ایک غریب گھرانے میں ہوئی ہے۔ اللہ یار بہت محبت سے بیٹی کا ذکر کرتے کہتے ہیں وہ میرے سے بہت پیار کرتی ہے مجھے اپنے ساتھ رکھنا بھی چاہتی تھی مگر مجھے اس کے حالات پتہ ہیں اس لیے میں اس کا بھرم رکھتے ہوئے خود ہی یہاں آ گیا ہوں کبھی کبھار اس سے ملنے جاتا ہوں وہ بہت خوش ہوتی ہے۔

ماسٹر اللہ یار کی بات سن کر حامد علی کی آنکھیں برس پڑیں ۔کہنے لگے کہ  وہ شروع سے ہی بدقسمت رہے ہیں۔ ساری زندگی محنت مزدوری کرتے گزری جس میں گزارا کرنا مشکل رہا۔ بہن بھائی اور بعد میں بیوی بچے بھی ان کو کم کمائی کے طعنے دیتے رہے۔ اور آخر میں جب اولاد جوان ہوئی تو ان حامد علی کو یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ ساری زندگی ہمیں کیا دیا جو اب ہم آپ کو اپنے ساتھ رکھیں۔

یہ تمام لوگ جنہوں نے زندگی بھر محنت کی اولاد کو پالا پوسا اب لاچار ہیں۔ عمر کے اس حصے میں ان کو روپے پیسے کا لالچ نہیں ہے ایک ہی خواہش ہے کہ کبھی ان کی اولاد کو اپنے باپ کی یاد آ جائے اور وہ پلٹ کر باپ کو دیکھ لیں ان سے ملنے آ جائیں۔

اپنے کام دھندوں میں پھنسی یہ اولاد اپنے بوڑھے والدین سے اس قدر بےنیاز ہے کہ اب وہ ملنے کے لیے وقت نکالنے کی بھی روادار نہیں ہے۔

یہ سب بزرگ ملنے والے سے دیر تک گفتگو کے خواہش مند رہتے ہیں ۔
باتیں کرتے ہیں
دکھ سکھ بتاتے ہیں اور جھولی پھیلا کر وہ تمام دعائیں بھی دے ڈالتے ہیں جو وہ اپنے اولاد کو دیا کرتے تھے۔
گریٹ ہوم کے سرپرست اعلیٰ زمرد خان کبھی دن اور کبھی رات کے اوقات میں آتے ہیں اچانک آ کر دیکھتے ہیں ان بزرگوں کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ عملہ کا رویہ ٹھیک ہے یا نہیں کسی کو کوئی بیماری تو نہیں۔ ایک اچھی اور آرام دہ زندگی بسر کرنے والے یہ بزرگ زمرد خان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔
مگر پھر بھی روتے ہیں بلکتے ہیں اور کہتے ہیں اولاد تو اولاد ہے اس کی کمی کوئی بھی پوری نہیں کر سکتا۔۔۔

زمرد خان کو مبارک ہو کہ اللہ نے جس کے دامن میں بہت سے یتیم بچے دیے تو اس نے یتیم خانے کے بجائے سویٹ ہوم بنالیا
زمرد خان کے والد اس دنیا سے رخصت ہوا تو اس نے اولڈ ہوم کے بجائے گریٹ ہوم بنا لیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے