چلے تھے ساتھ: حسین مناطر میں کہانی گم ہوگئی

چلے تھے ساتھ اس سال کی چوتھی پاکستانی فلم ہے جس کے بارے میں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ پچھلی تین فلموں سے بہتر تھی لیکن اس معیار پر نہیں اترتی جس کو مکمل فلم کہاجائے۔

فلم کے ہدایت کار عمر عادل، پروڈیوسر بینش عمر اور ایگزکٹو پروڈیوسر شیخ شیراز مبشر ہیں جبکہ کہانی عطیہ زیدی نے تحریر کی ہے۔ کاسٹ میں سائرہ شہروز، ژالے سرحدی، منشا پاشا، فارس خالد، اسامہ طاہر اور چینی اداکار کینٹ ایس لیینگ شامل ہیں جبکہ بہروز سبزواری اور شمیم ہلالی اور شہباز کلیم بھی مختصر کرداروں میں موجود ہیں۔

چلے تھے ساتھ کی کہانی پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ سے تعلق رکھنے والی لڑکی ریشم (سائر شہروز) کے گرد گھومتی ہے جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہے اوراپنی تہزیب اور علاقے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے شمالی علاقوں کی سیرکا ارادہ کرتی ہے۔ ساتھ ہی اس کے دوست تانیہ (منشا پاشا)، زین (اسامہ طاہر ) اور فراز (فارس خالد) بھی چلتے ہیں۔ راستے میں ان کے ساتھ چینی نوجوان آدم (کینٹ ایس لیینگ) بھی شامل ہوجاتا ہے جو چین سے پاکستان کے شمالی علاقے دیکھنے کے لیے آتا ہے۔ دوران سفر ریشم اورآدم ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ اور فلم میں ہلکا پھلکارومانس شروع ہوجاتا ہے۔ آگے چل کر آدم کی کہانی بھی بیان کی گئی ہے کہ اس کے پاکستان آنے کا مقصد اس راز کو جاننا تھا جس کے لیے کئی سال پہلے اس کا باپ اپنا سب کچھ چھوڑ کر ان پہاڑوں میں آبسا تھا۔ یہیں محبت کی ایک دوسری کہانی فراز کی بھی ہے جسے یہاں پر ایک خودمختار لڑکی علینا (ژالے سرحدی) سے پیار ہوجاتا ہے جو ایک تعلیم یافتہ بڑھئی ہے اور ایک بچی کی ماں ہے ۔

فلم میں محبت، جدائی، دکھ، وطن سے دوری جیسے تمام جذبات شامل ہیں اور اداکار بھی اپنا کام صحیح کررہے ہیں لیکن کہانی کہیں کھوگئی ہے اور جو تھی وہ بھی فلم کے ٹریلر سے ہی کھل گئی تھی۔ فلم دیکھتے ہوئے حسین مناظر اور خوبصورت اداکاروں کے علاوہ کسی بھی چیز نے زیادہ متاثر نہیں کیا۔

پہلے نصف تک توکہانی کی سست روی کو یہ کہ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے ڈائرکٹر نے اگلے نصف میں اتار چڑھاؤ ڈال کرجان پیدا کرنے کی کوشش کی ہو لیکن اگلے نصف سے رہی سہی کہانی بھی ہدایت کار کے ہاتھ سے پھسل گئی ہے اور فلم کو ادھر ادھر کے واقعات سے جوڑ کرمکمل کیا گیا ہے۔کاہنی کے ساتھ ساتھ مکالمے بھی جزبات سے عاری ہیں۔

فلم کی سینماٹوگرافی بہت خوبصورت ہے، کیمرہ ورک اور فریمنگ بھی تکنیکی لحاظ سے اچھی ہے۔ تمام اداکاروں نے جم کرکام کیا ہے خاص طور پر تینوں خواتین کی بے ساختہ اور تاثرات سے بھرپور اداکاری متاثر کن ہے جبکہ بہروز سبزواری اور شمیم ہلالی نے اپنے تجربہ کار ہونے کا ثبوت دیا ہے اور مختصر مگر جاندار کردار ادا کیے ہیں۔ کینٹ لیینگ گوکہ اردو نہیں بول سکتے لیکن نماسب تاثرات دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ فلم میں موبائل کے ذریعے اردو سے چائینیز مین ترجمعہ کرنے کا آئیڈیا اچھا تھا۔

چلے تھے ساتھ اپنی تما تر کمزوریوں کے باوجود اپنے خوبصورت مناظر کی وجہ سے لوگوں کی توجی حاصل کرہی ہے لیکن اگر کہانی اور ہدایت کاری جاندار ہوتی تو فلم میں بھی جان پڑجاتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے