ندیم عباس
پی ایچ ڈی اسکالر نمل یونیورسٹی اسلام آباد
. . .
یہ دنیا طاقتوروں کی دنیا ہے اس دنیا میں کمزور فقط محکوم ہے مظلوم ہے زندہ رہنا ہے تو جس طرح طاقتور چاہے اسے مرنا ہے تو جس طریقہ سے طاقتور چاہے ٹینک کا گولہ پھینکے ، کوبراہیلی کاپٹر سے مزائل گرائے ، یا کسی طیارے کی بمباری کی جائے اس کا فیصلہ بھی قاتل خود کرے گا .
اب تو ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے زندہ جلا دو تاکہ گولی ،مزائل اور بم پر ہونے والا خرچہ بھی بچ جائے بستیاں اجاڑ دو گھروں کو ویران کردو شہروں کوملیامیٹ کر دو کیوں کیوں کہ زبان فقط طاقت کی ہوتی ہے کیا پھر سے جنگل کا قانون آ گیا کہ ہر طاقتور کمزور کا شکار کر لے گا ہر کمزور اس لیے پیدا ہو گا کہ اسے طاقتور کا شکار بننا ہوتا ہے.
کیا انسان نے درختوں کے جنگل سے فلک بوس عمارتوں کے جنگل کی ترقی کی ہے ؟ کیا فلسطین میں بہنے والا انسانیت کا لہو اسی دنیا میں بہہ رہا ہے جہاں جانوروں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے جہاں درختوں کی کٹائی پر احتجاج ہوتا ہے آج اس ظلم پر ہر انسان شرمندہ ہے اس کا سر شرم سے جھکا ہے کہ وہ ایک ایسے عہد میں جی رہا ہے جہاں انسانیت کشی کی جارہے جہاں انسان نما لوگ نہتے لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں .
بچے تو زمین پر رحمت خدا ہوتے ہیں ان کے دم سے گھروں محلوں اور شہروں کی رونقین ہوتی ہیں بچے تو مذہب سیاست سب چیزوں سے نابلد ہوتے ہیں وہ تو صرف محبت کی زبان سمجھتے ہیں اسی میں بات کرتے ہیں ان کو ہر ظالم برا لگتا ہے چاہے ان کا ہم مذہب اور ان کا اپنا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو مگر ان ننھے پھولوں کی کٹی پھٹی لاشیں ان کے خون آلود چہرے ان کی لاشوں پر نوحہ کناں مائیں آہ بکا کرتے باپ قیامت کے مناظر ہیں قیامت کے مناظر ہیں.
مگر ہم ہیں کہ اپنے امور سے فرصت ہی نہیں اس تشدد کے خلاف اس قتل عام کے خلا ف آج کا مھذب انسان خاموش ہے آج کا تہذیب و تمدن کا دعویدار مغرب خاموش ہے کیوں یہ مرنے والے انسان نہیں ؟ یہ بمباری کی زد میں آنے والے بچے ان کے پھول سے چہرے کسی انسان پر کوئی اثر نہیں کر رہے ؟
اے کاش اے کاش آج کا انسان جنگل کا انسان ہوتا جہاں وہ مشکل میں گھرے انسان کو بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتا تھا جو تھوڑا بہت ملتا بانٹ کر کھا لیتا تھا آج تو خود انسان کو انسان سے خطرہ ہے اب تو جدید دور کی تقسیم آ گئی ہے آج کے مفکرین کہتے ہیں انسانیت کے لیے بہت تاریک دور تھا جب انسان کی درجہ بندی ان کے رنگ سے کی جاتی تھی ان کے قبیلے سے کی جاتی تھی وہ دور یقینا انسانیت کے لیے تاریک دور کی حیثیت رکھتا ہے۔
مگر آج کا دور بھی تاریک دور ہی کہلائے گا آنے والے نسلیں اس دور کو بہت برا دور سمجھیں گی ایسادور جس میں انسان کے حقوق اس کے قومیت کی بنیاد پر طے کیے جاتے تھے جس میں امریکی ہونے کا مطلب سب سے زیادہ حقوق والی نسل تھا اس کا بعد اہل یورپ تھے اس کے بعد چند دیگر طاقتور اقوام کے لوگ اور باقی ساری انسانیت کے کوئی حقوق نہ تھے۔
اگر اسرائیلی کسی ایک امریکی بچے پر بیت المقدس میں تشدد کریں تو اس پر باقاعدہ احتجاج دنیا بھر کا میڈیا اس کی کوریج کرے اور اگر فلسطین کے سینکڑوں سپوت خاک و خون میں غلطان کر دیئے جائیں تو بھی خاموشی ایسی خاموشی جو ظالم کی مدد گار ہوتی ہے جس سے ظالم کو مزید قتل عام کا حوصلہ ملتا جو ایک طرح سے خود ظلم میں شریک ہونا ہوتا ہے۔
اس جاہلیت کے ماحول میں کو ئی چند انسان نے نہیں جو زمانہ جاہلیت میں ظلم و جبر میں جکڑی ہوئی انسانیت کو دیکھ کر یہ عہد کریں کہ ہم ہر مظلوم کی حمایت کریں ہر ظالم کی مخالفت کریں گے جس نے کسی کمزور کا حق چھینا اس ظالم سے اس کمزور کو حق دلائیں گے اور اس میں جان کی پرواہ نہیں کریں گے ۔
میرے خیال میں انسانوں کی بستیوں اب انسانیت ایک جنس نایاب بن چکی ہے زمانہ جاہلیت میں تو ایسے انسان تھے جنہوں نے انسانیت کے حقوق کی بات کر کے عہد کیا مگر اس دور میں انسانیت کو غلام بنانے کے معاہدے ہوتے ہیں قوموں کو مجبور کر کے ان سے اجتماعی غلامی کرائی جاتی ہے ۔
اس ظلم اس بربریت کے خلاف اس استحصال کے خلاف ایک عالمی انسانی انقلاب کی ضرورت ہے جس کی آنکھ میں امریکی ،یورپی افریقی سب برابر ہوں جو اولاد آدم کو بھائی بھائی سمجھیں جن کا اوڑھنا بچھونا انسانیت ہو آج فلسطینی ماوں کی عرش لرزاتی چیخیں قدس کی مقدس سرزمین پر بہتا ہوا سرخ خون انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے اور امن عالم کے ذمہ دار ادارے کا سربراہ کہتا ہے قتل ہونے والے ظلم سہنے والے حملے بند کر دیں ۔
یہ کیسا انصاف ہے؟یہ کونسی عینک ہے جو پہن کر سب کچھ دیکھا جا رہا ہے؟ جو ٹینک کو پتھر مار رہے ہیں ان سے کہا جا رہا پتھر نہ مارو جو ہوائی جہاز وں اور ہیلی کاپٹرز کو دیکھ کر چیخے اسے کہا جا رہے رک جاو خاموش ہو جاؤ چیخیں مت مارو مگر ان آگ برسانے والے بارود کے ڈھیر گرانے والے لوگوں سے نہیں کہا جا رہا تم رک جاو انسانیت پر ظلم نہ کرو بچوں کا قتل عام نہ کرو عورتوں سے ان کے بیٹے اور شوہر مت چھینو۔
یہ بچوں کے حقوق پر سب سے بڑا ڈاکہ ہے کہ ان سے جینے کا حق چھین لیا جائے یہ عورتوں کے حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے کہ ان سے ان کا باپ بھائی اور شوہر چھین لیا جائے مگر بچوں اور عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو جیسے سانپ سونگھ گیا وہ اس لیے بات نہیں کرتیں کہ ان کے فنڈز روک لیے جائیں گے۔
اے کاش ایسا ہوتا کہ مشرق و مغرب کے بچے فلسطینی بچوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے رات کو موم بتیاں جلاتے پوری دنیا کی خواتین فلسطینی عورت کے حقوق کے لیے کھڑی ہوتیں نوجوان فلسطینی نوجوان کی بات کرتے تو کسی ظالم کو جرات نہ ہوتی کہ انسانیت پر اس طرح کے مظالم ڈھائے ۔
اے انسانوں کی اس دنیا میں رہنے والے لوگو۔ ۔
فلسطین میں انسانیت جل رہی ہے۔ ۔
انسانیت جل رہی ہے۔ ۔