نہیں بھائی ، ہمیں میڈیا کوریج نہیں چاہیے

 ۲

عظمت ملک

صحافی ، اسلام آباد

۔ ۔ ۔

گذشتہ روز میرے ایک دوست مجھے کہا کہ شام کو ہم ایک پروگرام میں جائیں گے ۔ میں نے اسے ٹالنے کی کو شش کی تاہم اس کے اصرار پر ہتھیار دال دیے ۔

تقریب میں پہنچ کر جب اس پروگرام کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو سر شرم سے جھک گیا ۔

مجھے بتا یا گیا کہ معذور افراد کے ایک گروپ نے 100 سے زائد  پہیہوں والی کرسیاں (ویل چیئرز) ایسے معذور افراد میں تقسیم کرنے جا رہے ہیں جن کے پاس
کھانے کو لقمہ نہیں
پہننے کو کپڑے نہیں
رہنے کو چھت نہیں
دکھ سانجھے ہوتے ہیں اور جب دکھوں میں سانجھ آتی ہے تو محرومیاں طاقت اور توانائی میں بدل جاتی ہیں ۔

۱

معذور افراد اپنا دکھ خود جانتے ہیں اس لیے انہیں دوسرے معذور افراد کا دکھ بھی پتا تھا ۔ انہوں نے پیسے اکٹھے کئے اور غریب معذور افراد کے لیے  پہیہوں والی کرسیاں خریدیں تاکہ وہ اس بنیادی جسمانی محرومی کا مقابلہ کر سکیں۔

میں نے دیکھا کہ پورے ہال میں میڈیا کا کوئی کیمرا نہ اور نہ ہی رپورٹر ، میڈیا کی بے حسی پر افسوس ہوا ۔ سوچا کہ اتنے اہم پروگرام کی میڈیا میں کوریج ہونی چاہیے تھی ۔ یہ سوچ کر آگے بڑھا اور پروگرام کے منتظم سے پوچھا کہ
آپ لوگوں نے اتنی اچھی ، منفرد اور انتہائی اہم تقریب میں میڈیا کو دعوت کیوں نہیں دی؟
تو ایک اور شر مندگی میرا انتظار کر رہی تھی ۔

منتظم نے کہا کہ
ٹی وی یا اخبار میں خبر چل گئی تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہم بھی دو نمبر لوگ ہیں ۔
لاکھوں روپے چندہ اکٹھا کر تے ہیں اور ہزاروں روپے خرچ کر شور مچاتے ہیں ۔ اس لیے ہم نے ایک طرح سے اس تقریب کا انعقاد میڈیا سے چھپ کر کیا ہے ۔

۳

منتظم کا کہنا تھا کہ ہم کسی سے نقد رقم نہیں لیتے تاہم اگر کوئی دینا چاہے تو اس سے پہیوں والی کراسی مانگتے ہیں ۔ ہم آپس میں پیسے جمع کر تے ہیں ۔ سروے کر تے ہیں ۔ جو شخص ہماری تحقیق پر پورا اترتا ہے ، اس کی مالی معانت بھی کر تے ہیں اور اگر اسے ویل چیئر کی ضرورت ہے تو وہ بھی دے دیتے ہیں ۔

انتہائی اصرار کے باوجود انہوں نے مجھے خبر شائع کرنے سے روکنے کی درخواست کی جس کے بعد میں یہاں یہ تحریر لکھ رہا ہوں ۔

۴

زندگی میں پہلی بار  ایسی تقریب دیکھی جس کے میزبان بھی معذور ، مہمان بھی معذور ، نگران بھی معذور تھے ۔

میں نے سوچا کہ یہ کام میں بھی کر سکتا تھا ۔
اپنے چند دوستوں کو اکٹھا کر کے
اپنے محلے کے چند غریب گھرانوں کو
کم از کم عید کی کوشیاں دے سکتا تھا
اپنے محلے کی بیواؤں کو ایک سوٹ خرید کر دے سکتا تھا ۔
اپنے محلے کے ایک یتیم بچے کو اسکول کا بیگ لے کر دے سکتا تھا ۔
اپنے محلے کی ایک بیٹی کی شادی میں ہاتھ بٹا سکتا تھا ۔
لیکن میں نہیں کر سکا
کیونکہ میں معذور نہیں تھا ۔
میرے ہاتھ پاؤں سلامت تھے ۔
اور میں لولا لنگڑا تھا ۔
میرا دماغ بالکل ٹھیک تھا ۔
اور میں پاگل ہو چکا تھا ۔
میری آنکھیں سب دیکھ رہی تھیں ۔
لیکن میں اندھا تھا ۔
مجھے محسوس ہوا کہ معذور وہ نہیں
ہم ہیں
ہماری حکومت ہے
ہمارا معاشرہ ہے
یہ ریاست ہے
اس ریاست کا ہر شہری ہے
میں بھی
اور تم بھی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے