زارا قاضی
صحافی
نمل یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشنز میں ماسڑز کرنے کے بعد ہم نے سوچا رعب والی ڈگری تو لے لی ہے اب کسی طرح رعب داب والی نوکری بھی ڈھونڈ لی جائے.
ہم صحافت کے شعبے کے ”متاثرین” میں سے تھے اس لیے ہم نے کوششیں کرتے بالاخر ایک ٹی وی چینل میں نوکری ڈھونڈ ہی لی.
شریکوں کو سڑانے کے لیے فیس بک اسٹیٹس لگانے سے لے کر سہلیوں کو جلانے کے لیے نئے جوڑے بھی بنا ڈالے آخر کو ہم صحافن بننے جا رہے تھے…
جی ہاں ہمارا خیال تھا کہ شاید خواتین صحافی کو صحافن کہا جاتا ہو گا. مگر ہماری معلومات میں تب اضافہ ہوا جب سینیئرز نے بتایا کہ بی بی صحافی کی کوئی جنس نہیں ہوتی صحافی بس صحافی ہے. مردوں میں مرد بن کر رپورٹنگ کرنا ہو گی.
دل و دماغ کو سمجھاتے ہم نے ٹھان لی کہ اب مردانہ وار رپورٹنگ کریں گے. جیسے جیسے ہم صحافی بننے کی کوشش کر رہے تھے ویسے ویسے ہم پر مزید ہولناک انکشافات ہو رہے تھے مثلاً کوئی عید، شب برات، کوئی خوشی کوئی غمی صحافی کے پروفیشن کے پیشن میں حائل نہیں ہو سکتی. عید ہو یا عاشورہ چھٹی کی توقع عبث ہے. اگر آپ کو لگتا ہے آپ کی نظام کار متعین ہوں گی تو آپ کی یہ غلط فہمی ختم ہونے میں زیادہ وقت درکار نہیں ہو گا. جیسے موت کا کوئی وقت نہیں ہوتا ویسے خبر کا بھی کوئی وقت نہیں ہوتا.
صحافی بننے کے بعد اس خوش فہمی سے باہر آنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا کہ آپ کی کوئی ذاتی زندگی ہے. آپ بیمار ہوں یا ہٹے کٹے، گھر میں ہیں یا کسی کی وفات پر، کسی بیکری میں ہوں یا بازار میں خبر دینا ضروری ہے اور پھر اس خبر پر فونک بیپر بھی ہو سکتا ہے. بھائی آپ نے مسنگ نہیں ہونے دینی..
کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کالے بادل، گھنگھور گھٹائیں اور بارش ہماری کمزوری تھی ایسے موسم میں چائے اور پکوڑے ہماری کمزوری تھے. مگر بھلا ہو ہماری نوکری کا ادھر بارش کا چھینٹا پڑا ادھر پیکج کی ڈیمانڈ آ گئی. بھاڑ میں گئے چائے پکوڑے.. پیکج کے لیے نکل پڑو،،، لوگوں کو ڈھونڈتے ،،،بات کرتے ،،،موسم کا مزا غارت کرتے اور اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتےپیکج بناتے رہے ۔
صحافت کے اصولوں سے شناسائی کے مراحل طے ہو ہی رہے تھے کہ رمضان شریف آگیا اور ساتھ ہی عید کی تیاریوں پر پیکجز اور لائیو ہٹس کا سلسلہ شروع ہو گیا. ہم نے سوچا چونکہ صحافی کی کوئی جنس نہیں ہوتی تو مل جل کر سارے ہی رپورٹرز باری باری بازاروں سے ہٹس کروا لیا کریں گے. مگر نہیں جی.. عید پر بازاروں سے لائیو ہٹس صرف خواتین رپورٹرز ہی کروائیں گی کیونکہ ہیڈ آفس کی یہی ڈیمانڈ ہے ہم تب سے سوچ میں ہیں کہ جب صحافی کی جنس نہیں ہوتی تو.. خیر صاحب جانے بھی دیں ، چھوڑیئے
ہماری قسمت دیکھیں ایک زمانہ تھا کہ لوگ ٹی وی میں خود کو دیکھنے کے لیے بےتاب ہوتے تھے مگر جب ہم میڈیا میں آئے تو ٹی وی چینلز کی اس قدر بھرمار ہو چکی ہے کہ لوگوں نے میڈیا والوں کو فارغ اور ویلا ہی سمجھنا شروع کر دیا ہے.
عید کی تیاریوں میں مصروف لوگ جب بازار آتے ہیں تو 4،5 چینلز کے رپورٹر کسی گھاگ شکاری کی طرح تاک میں بیھٹے نظر آتے ہیں. پر مزا تب آتا ہے جب لوگ ایک چینل والوں سے نظریں چراتے گزرتے ہیں کہ آگے دوسرے چینل کا صحافی انہیں گھیر لیتا ہے. لوگ اپنی اس قدر اہمیت پر حیران کم پریشان زیادہ ہوتے ہیں. مگر اس وقت وہ صحافی کے جذبات سے ناآشنا ہوتے ہیں..
پر ایک بات ہے سیکھنے کا عمل جاری ہے
مطلب صبر، تحمل، برداشت اور ہاں صحافت بھی
آخر میں راز کی بات بتاوں..
صرف وقت نہیں صحافت بھی بڑی استاد ہے