ندیم عباس
پی ایچ ڈی اسکالر ، نمل اسلام آباد
۔ ۔ ۔
اس معاہدے سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ ممالک کے تعلقات جذبات پر قائم نہیں ہوتے ہر ملک کا اپنا اپنا مفاد ہوتا ہے اور اسے حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے جس ملک سے چاہے تعلقات قائم کرے
آج کی جدید دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی ملک دنیا سے کٹ کر رہ سکے ترقی کرنا تو دور کی بات ہے گزارا کرنا مشکل ہے
دوسری طرف دنیا بھی کسی اہم ملک کو نظر انداز نہیں کر سکتی اسی لیے دنیا کے چھ طاقتور ترین ممالک کے وزرائے خارجہ مہینوں مذاکرات کرتے رہے اور آخر کار ایک سفارتی حل ڈھونڈ لیا گیا اسی لیے کہتے ہیں بات چیت کے دروازے بند نہیں کرنے چاہیں بار بار انسانی دانش کو تبادلہ خیال کا موقع دینا چاہیے اللہ نے انسان کو اتنی صلاحیت دی ہے کہ وہ بظاہر ناممکن نظر آنے والے مسائل کو بھی باہم بات چیت کے ذریعے حل کر لیتا ہے
کاش ایسا ہو جائے کہ اب ایران اور سعودی عربیہ بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے اسے طرح کے مذاکرت کا آغاز کریں جس میں ناکامی کے آپشن کو ختم کر کے فقط کامیابی کے لیے بات چیت کی جائے اور ان نفرتوں کو ختم کیا جائے مشرق وسطی میں لگی آگ کا خاتمہ کیا جائے
میرے خیال میں باہمی اعتماد کی کمی ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے مگر افسوس سب ناکام ہو رہے ہیں
اہل مغرب نے دو جنگ ہائے عظیم لڑ کر یہ بات سیکھی کہ باہم مسائل کا حل خلوص دل سے کیے جانے والے مذاکرت ہی ہیں اور اسی سے انہوں نے اپنے تمام مسائل کو حل کر لیا مسلمانوں نے بھی باہم جنگوں میں بہت خون بہا لیا اب امت کو امن و سکون چاہیے اگر یہ دو اہم ممالک آپس کے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کر لیتے ہیں تو یقین جانئے اس کے اثرات وطن عزیز پر بھی ہوں گے اور یہاں جاری فرقہ واریت کی لہر بھی ختم ہو جائے گی