محمد بلال ، گوجرانوالہ
تقریبا 23ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدہ طے پاگیا ہے۔معاہدے کی تفصیلات تو بعد میں سامنے آئیں گی لیکن چند بنیادی نکات یہ ہیں
ایران پر سے ہتھیاروں کی پابندی اٹھ جائے گی لیکن اس کی جگہ نئی پابندیاں لائی جائیں گیا
ایران اسلحے کی درآمد اور برآمد کر سکے گا لیکن اس کے لیے اجازت کی ضروری ہو گی۔
معاہدے پر عملدرآمد ہونے پر امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے عائد کی گئی اقتصادی اور مالی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔
ایران یورینیئم کی افزودگی جاری رکھے گا.
ایران سینٹریفیوجز کو ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے لیے استعمال کرتا رہے گا۔
ایران اپنے ایٹمی مراکز عالمی اداروں کے معائنہ کے لئے ہمہ وقت کھلے رکھے گا۔
اس معاہدے میں بنیادی کردار امریکہ کی سفارتی کوششوں کا ہے۔جس کے نتیجہ میں یہ معاہدہ ممکن ہوا۔۔۔۔امریکہ و ایرانی صدور نے اس معاہدے پہ خوشی کا اظہار کیا ہے۔اور اس معاہدے کو ایران مغرب تعلقات کے لئے نہایت سود مند قرار دیا ہے۔ 2003 میں جب "آئی اے ای اے” نے انکشاف کیا کہ "نظنز”کے جوہری مرکز میں انتہائی افزودہ یورنیم کے آثار ملے ہیں تو عالمی سطح پہ ایران کا ایٹمی پروگرام متنازع بن گیا ۔اور اسی بنیاد پہ 2006 میں ایران پر سلامتی کونسل کی جانب سے مختلف پابندیاں لگا دیں گئیں۔ اس کے بعد مذاکرات کی کئی کوششیں ہوئیں لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔
احمدی نژاد نے ایک سخت گیر مذہبی لیڈر ہونے کی وجہ سے کسی قسم کی لچک نہ دکھائی اور چونکہ ان کی مقامی سیاست ہی مذہب اور شیطان بزرگ کے نعرہ کے ارد گرد گھومتی تھی اس لئے وہ یہ معاہدہ کرنے میں ناکام رہے۔ دوسری جانب امریکی صدر بش بھی مہم جو طبیعت کے مالک تھے۔
معاہدہ کے حوالے سے امریکی صدر اوباما نہایت پرجوش ہیں اور اسکو اپنی اہم کامیابی تصور کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ ” یہ معاہدہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی سے روکنے کا واحد حل تھا اور وہ خوش ہیں کہ انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں روکاوٹ ڈال دی ۔امریکی صدر اتنے پرجوش تھے کہ انہوں نے کہا کہ اگر کانگریس نے اس پہ اعتراض کیا تو وہ اس کو ویٹو کردیں گے۔
جبکہ ان کے ایرانی ہم منصب کا کہنا تھا کہ ہم ایک نئے مقام پہ کھڑے ہیں ۔اور یہ معاہدہ مغرب کے ساتھ تعلقات کی نئی بنیاد رکھے گا۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے کی بنیاد اعتماد نہیں ہے۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ اعتماد پہ نہیں بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کی عدم تیاری کی یقین دہانی پہ مبنی ہے اور ایٹمی معائنہ کار کسی بھی وقت ایرانی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کر سکیں گے۔
فرانسیسی صدر اولاندا کا کہنا تھا کہ اب ہمیں زیادہ ہوشیار رہنا پڑے گا کیونکہ ایران کے مالی وسائل بڑھیں گے اور دیکھنا ہو گا کہ وہ ان کو کیسے استعمال کرتا ہے۔ کیا بغیر اعتماد کے بننے والا یہ معاہدہ زیادہ دیر برقرار رہ سکے گا؟
اس معاہدہ کے بڑے متاثرین میں سعودیہ اور اسرائیل ہیں۔سعودیہ کا کہنا ہے کہ پابندیاں اٹھنے سے بڑھنے والی آمدنی کو ایران خطے میں اشتعال انگیز کاروائیاں کرنے کے لئے استعمال نہ کرے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق سعودیہ نے ہمیشہ اس بات پہ زور دیا ہے کہ ایران کا ساتھ ایسا معاہدہ ہو جس کے نتیجے میں ایران ایٹمی ہتھیار بنانے سے گریز کرے۔
جبکہ اسرئیل نے اس معاہدے کو تاریخی غلطی قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا اب پہلے سے زیادہ خطرناک ہے۔اسرائیل اپنے دفاع کا حق رکھتاہے ۔جبکہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے نیتن یاہو کو فون کر کے تسلی دی کہ اس معاہدہ کے باوجود ایران کی تشدد پسندانہ سرگرمیوں سے امریکہ کی نظر نہیں ہٹے گی۔ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاہدہ ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکے گا جو کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں کے مفاد میں ہے۔