حکومت آزادجموں کشمیرکاایک سال

ایک سال قبل 31 جولائی 2016 کو راجا فاروق حیدر نے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کا حلف لیا تھا۔ 2016 کے عام انتخابات کی مہم کے دوران راجا فاروق حیدر نے آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 74 میں اصلاحات(کونسل کی اجارہ داری ختم کرنا اور اسمبلی با اختیار بنانا)،کرپشن کے خاتمے اور گڈ گورننس کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے پر زور دیا تھا۔ ایک سال مکمل ہونے کے بعد آزاد حکومت نے ریاستی اخبارات میں ایک سپلیمنٹ کی صورت میں اپنی کارکردگی کی ایک لمبی فہرست شائع کروائی۔پی آئی ڈی سے جاری کروائے گئے سروے میں ریاست میں خوشحالی اورانقلاب بتایا گیا۔اس صورت حال میں آزاد حکومت کی کارکردگی فائلوں میں تو بہت زیادہ ہے لیکن حقیقی پڑتال کی ضرورت ہے کہ کیا دعوے کئے گئے اور ان پر عمل درآمد کیا ہوا۔

آزاد حکومت کی انتخابی مہم کے دوران لگائے جانے والے نعروں اور دعوؤں کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کرنے کا نعرہ سنائی دیتا تھا۔ اس ضمن میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا آزاد حکومت تحریک آزادی کشمیر کی اسٹیک ہولڈر ہے؟کیا اس کی آونر شپ یا اتھارٹی آزاد حکومت کے پاس ہے ،حقیقت یہ ہے کہ آزاد حکومت تحریک آزادی کشمیر کی اسٹیک ہولڈر نظر نہیں آتی۔ اس تحریک کی آنر شپ کس کے پاس ہے ، وہ الگ بحث ہے تاہم اس حوالے سے آزاد حکومت کے پاس اختیارات بیرون ملک(امریکہ،یورپ) دوروں کے دوران واشنگٹن پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب یا یورپ میں موجود کشمیر کمیونٹی سے ملاقات سے زیادہ نہیں ہے۔

دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ آزاد حکومت کے پاس کشمیر کے مسئلے کوبین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے اختیارات محض احتجاج کرنے اور بیانات دینے تک محددو ہیں . گزشتہ سال اٹھنے والی مزاحمتی تحریک کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے پیلٹ گن کے استعمال سے تقریبا 1600 افراد کو بینائی سے محروم کیا، 195شہادتیں ہوئیں اور ہزاروں زخمی ہوئے ۔ اس پر پورے سال میں آزاد حکومت نے ایک مرتبہ بھرپورقسم کا احتجاج کیا اور ایک بین الجامعات تقریری مقابلہ کروایا۔اب گزشتہ ایک ماہ سے ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت پر یلغار کر رہا ہے اور ہماری حکومت مکمل خاموش ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا حکومت آزاد کشمیر کم از کم سرکاری سکولوں ، کالجز اور جامعات میں کشمیر کے حالات اور اس کی حیثیت سے متعلق آگاہی مہم کا انعقاد کرتی تاکہ آزاد کشمیر کے طلباو طالبات خونی لیکر کے اس پار بسنے والوں کے احوال جان سکتے اور اپنے تہی ان کو سامنے لانے کی کوششیں کرتے۔

انتخابی مہم کا دوسرا نعرہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں اصلاحات کا تھا جن کا ذکر فاروق حیدر بار ہا اپنی تقاریر میں کرتے رہتے ہیں اور اپنی بے اختیاری پر ان کا یہ جملہ’’کشمیر کونسل مہاراجہ کی دوسری شکل ہے‘‘ مشہور ہے اور وہ اکثر کشمیر کونسل کو ختم کرنے یا اس کے اختیارات کم سے کم کرنے کے دعوے کر چکے ہیں تاہم موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ وہ آئینی ترامیم کے حوالے سے مکمل طور پر امید ہار چکے ہیں ۔ اس بابت جب بھی ان سے سوال کیا جاتا تو وہ وفاق کی ایک کمیٹی کا ذکر کرتے جو وفاقی وزیر امور کشمیر، وفاقی وزیر قانون،وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر اعظم آزاد کشمیر سمیت کچھ اور ممبران پر مشتمل تھی لیکن اس کمیٹی نے کوئی کام نہ کیا۔

اب شاید عوام کو یہی کہا جائے گا کہ ہم ترمیم کرنے جا رہے تھے کہ میاں نواز شریف کو ہٹا دیا گیا اور ترمیم ممکن نہ ہو سکی لیکن با شعور لوگوں کیلئے یہ قابل قبول نہیں ہو گا کیونکہ میاں نواز شریف بار ہا کہہ چکے ہیں کہ ان کے جانے سے ان کی پالیسیوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہی کام آزاد کشمیر کی گزشتہ مجید حکومت نے کیا تھا، اس حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی اور مسودہ تیار کیا اسے بذریعہ کشمیر کونسل وزیر امور کشمیر ’’ منظور وٹو ‘‘کو بھیجا لیکن اس سے آگے کام نہیں بڑھ سکا اور بعد ازاں یہ کہا جانے لگا کہ وفاق سے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی تھی اس لئے ترمیم نہ کروا سکے ۔ گزشتہ حکومت کی طرح اس معاملے پر موجودہ ریاستی حکومت کی بھی کوئی شنوائی نظر نہیں آتی اور حکومت وفاق کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہے۔

تیسرا نعرہ گڈ گورننس کا تھا جس میں پہلے کرپشن کے خاتمے اور سابقہ دور حکومت میں ہونے والی کرپشن پر کارروائیوں کا دعوی کیا جاتا تھا لیکن پورے سال میں آزاد کشمیر احتساب بیورو نے سوائے وویمن یونیورسٹی کے وائس چانسلر حلیم خان اور ان کے کچھ سٹاف ممبران کے خلاف مقدمے قائم کرنے اور گرفتاری کے کچھ نہ کیا کیونکہ آزاد کشمیر احتساب بیورو ایک سیاسی ادارہ بن چکا ہے ۔ آزاد کشمیر احتساب بیورو کے کام کی آج تک عوام کو سمجھ نہ آ سکی کیونکہ یہ ادارہ کرپشن کے نام پر مقدمہ درج کر لیتا ہے، گرفتاری بھی ہو جاتی ہے لیکن آج تک کسی مجرم سے ریکوری نہیں ہو سکی۔ اس میں سیاسی مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں یا نظام کی خرابی ہے تاہم آج تک سرکاری و عوامی مال لوٹنے والوں سے کچھ بھی برآمد نہ کیا جا سکا ،یہ موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ احتساب بیورو کے قیام سے اب تک کی کہانی ہے۔

اس کے برعکس اگر پاکستان میں قومی احتساب بیورو(نیب)کو دیکھیں تو وہ کم ہی سہی لیکن لوٹی ہوئی دولت کا کچھ حصہ برآمد کر لیتی ہے۔فاروق حیدر ایک سال میں تو کچھ نہ کر سکے لیکن انہیں چاہئیے کہ وہ آئندہ چار سالوں میں اس شعبے میں بہتری لائیں تاکہ لوٹی ہوئی دولت واپس ریاست میں آ سکے۔

گڈ گورننس میں تقرریوں میں میرٹ اور شفافیت لانے کا دعوی بھی کیا گیا تھا اور شفافیت کیلئے آزادکشمیر کے شعبہ تعلیم کی تقرریاں NTS کے ذریعے کروائی گئیں۔ اس نظام میں بھی کئی خامیاں ہیں تاہم بہتری کی کوشش کی گئی لیکن اس نظام کو صرف شعبہ تعلیم میں اپلائی کیا گیا جس سے کئی شکوک پیدا ہوتے ہیں ۔کیا آزاد حکومت شعبہ تعلیم کے علاوہ دیگر تمام شعبوں میں تقرریاں میرٹ سے ہٹ کر سیاسی اور سفارشی طریقے سے کرنا چاہتی ہے؟ سیاسی اور سفارشی کلچرہمارے نظام پر ایسا دھبہ ہے جسے فاروق حیدر بھی ختم نہ کر سکے۔

تعمیر و ترقی کو بھی گڈ گورننس کا حصہ ماناجاتا ہے لیکن آزاد کشمیر میں صرف سڑکوں کے حالات دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کس قدر اچھی حکمرانی ہے۔آئے روز حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں اس پر کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات آج تک حکومت اس مسئلہ پر توجہ دینے سے قاصر ہے۔ حال ہی میں پیش ہونے والے بجٹ پر آزاد حکومت پھولے نہیں سما رہی کہ ن لیگ کی حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں 100فیصد اضافہ کیا ہے لیکن اڑھائی ماہ گزرنے کے بعد بھی شاہرات پر حفاظتی اقدامات یا کسی دوسرے ترقیاتی منصوبے پر کام ہوتا نظر نہیں آ رہا اب معلوم نہیں سو فیصد اضافے کے ساتھ 22ارب روپے کہاں گئے؟؟

انتخابی مہم کے دوران آزاد کشمیر میں چھ ماہ کے دوران بلدیاتی انتخابات کروانے کا وعدہ کیا گیا تھا اور پورا ایک سال گزرنے کے باوجود بھی بلدیاتی انتخابات نہ ہو سکے۔موجودہ مالی سال کے دوران بلدیاتی انتخابات کیلئے 50 کروڑ کا بجٹ مختص کیا جا چکا ہے اس کے باوجود موجودہ مالی سال کے دوران بلدیاتی انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے کیونکہ اس کیلئے بنیادی لوازمات پر حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں پر ابھی کام شروع کیا جا سکا نہ ہی بلدیاتی محکمے فعال ہو سکے۔

ایک بڑا مسئلہ جس پر ابھی تک حکومت کا کوئی بیان یا پالیسی سامنے نہیں آئی ، وہ سرکاری اداروں میں غیر ضروری سٹاف کی موجودگی کا ہونا ہے۔ کئی ادارے ایسے ہیں جہاں چار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہاں دوگنے افراد کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کئی ایسے سکول ہیں جہاں طلبا کی تعداد کم ہے اور اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے۔ حکومت کو ایسے اداروں کی طرف توجہ دیتے ہوئے بڑے اقدام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاستی خزانے سے بوجھ کم ہو سکے۔

اس وقت آزاد کشمیر کے بجٹ کا تقریبا 80فیصد حصہ ملازمین کی تنخواہوں پر جاتا ہے ۔اس حوالے سے اگر دیکھا جائے ایسے ادارے جس کے معمول کے اخراجات بجٹ کے 40فیصد سے زائد ہوں تو وہ ادارہ دیوالیہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کسوٹی پر اگر ریاست کو پرکھا جائے یہ دیوالیہ ریاست تصور کی جائے گی۔

ایسے میں پی آئی ڈی آزاد کشمیر سے جاری کی گئی ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ آزاد کشمیر حکومت کی کارکردگی انتہائی کمال رہی، میڈیا کو حکومت کا فعال ترین ادارہ بتایا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ سرکاری اداروں پربھرپور طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ پی آئی ڈی نے رپورٹ میں لکھا کہ یہ آزاد کشمیر میں پلڈاٹ طرز کا پہلا سروے ہوا ہے۔ اس پر حکومت کے ترجمان ادارے پی آئی ڈی سے سوال کرتا ہوں کہ کوئی ایک سروے بتا دیں جو پلڈاٹ نے کیا ہو۔ پلڈاٹ تو تحقیقی رپورٹس شائع کرتا ہے ، وہ سروے نہیں کرتا۔ دوسرا یہ بتا دیں کہ میڈیا ریاست یا حکومت کا ادارہ ہوتا ہے؟(سروے کے لیے بنائے گئے سوال نامے میں میڈیا کو بھی سرکاری اداروں کی فہرست میں ظاہر کیا گیا ہے)

رپورٹ میں کہا گیا کہ فاروق حیدر نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے کابینہ کو مختصر رکھا۔ اس بات پر فاروق حید ر حقیقت میں مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن شائد یہ عام آدمی کیلئے دلچسپی کی بات نہیں ہے کیونکہ کابینہ کے مختصر یا زیادہ ہونے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ کابینہ کے فعال ہونے سے مسائل میں کمی آئے گی۔

قصہ مختصر یہ کہ حکومت کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد حکومتی کارکردگی کو دیکھا جائے اور عام آدمی کی رائے لی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بے روزگاری پہلے سے بڑھ چکی ہے، لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر نہیں۔ نئے ترقیاتی منصوبے تو دور کی بات التوا کے شکار منصوبوں پر کام شروع نہیں ہو سکا۔گڈ گورننس ،تعمیر و ترقی اور آئینی اصلاحات سے بے زار ہو کر وزرا ء نا اہل وزیر اعظم کی گاڑی کے ساتھ تصاویر کھنچواتے نظر آتے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ آزاد کشمیر میں عملا کوئی حکومت نہیں سبھی اپنے آقاؤں کی خوشنودی میں مصروف ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے