ذرائع کے مطابق بدھ کی صبح ضلع مظفرگڑھ کے قریب شاہ والا کے علاقے میں میں پولیس کے مبینہ مقابلے میں کالعدم شدت پسند تنظیم لشکرِ جھنگوی کے بانی و سابق امیر ملک اسحاق سمیت 16 افراد کو قتل ہو گئے ۔ پولیس کے مطابق ملک اسحاق کو ان کے دوبیٹوں عثمان اور حق نواز سمیت ایک ہفتہ قبل باضابطہ طور گرفتار کیا گیا تاہم وہ کافی عرصے سے 16 ایم پی او کے تحت نظر بند تھے ۔
مارے جانے والوں میں ان کے دو بیٹے عثمان اور حق نواز، ترجمان سید غلام رسول شاہ ، تہذیب حیدرشاہ اور زبیرعرف ٹڈا بھی شامل ہیں۔ ملک اسحاق کا تعلق رحیم یار خان جبکہ غلام رسول شاہ کا تعلق بہاولنگر سے تھا ۔ غلام رسول شاہ نے 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ 189 سے انتخاب میں حصہ لیا اور 13 ہزار ووٹ حاصل کئے ۔
لاشوں کو ڈی ایچ کیو اسپتال مظفر گڑھ منتقل کردیا گیا ہےجہاں لاشوں کا پوسٹ مارٹم مکمل کرکے مقتولین کے خاندانوں کو اطلاع دے دی گئی ہے ۔
ملک اسحاق کے قتل کے بعد رحیم یار خان میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے ۔ ضلعی انتظامیہ نے رینجرزکی چار کمپنیاں طلب کی ہیں ۔
پی ٹی وی نے پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ کارروائی ملتان پولیس کے انسدادِ دہشتگردی ڈیپارٹمنٹ نے تھانہ صدر کے علاقے میں کی۔
ملک اسحاق مکتب تشیع سے وابستہ افراد کو قتل کرنے کے جرم میں 18 سال جیل میں رہےتاہم عدالت نے انہیں ثبوتوں کی عدم فراہمی کی بنیاد پر رہا کر دیا تھا ۔
وہ ابتدا میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے رکن تھے لیکن اپنی مبینہ متشدد پالیسی کی بنیاد پر سپاہ صحابہ سے اختلاف کے بعد 1996 میں اپنی تنظیم لشکر جھنگوی کی بنیاد رکھی اور اس کے امیر بن گئے۔ یہ تنظیم بھی کالعدم قرار دے دی گئی تھی۔
سنہ 2012 میں ملک اسحاق کے اہل سنت والجماعت سے قیادت کے معاملے پر اختلافات ختم ہوگئے تھے اور تنظیم کے موجودہ سربراہ احمد لدھیانوی اور ملک اسحاق میں صلح کے بعد انھیں تنظیم کا نائب صدر بنا دیا گیا تھا۔
اہل سنت والجماعت کے ترجمان کے مطابق
ملک اسحاق کو 2012 میں مسلح جدوجہد سے ہٹا کر اہل سنت والجماعت میں شامل کیا گیا تھا تاہم انکی مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے اہل سنت والجماعت نے 2013 میں ملک اسحاق سے باقاعدہ علیحدگی اور لاتعلقی کا اعلان کردیا تھا۔ 2013 سے اب تک وہ اہل سنت والجماعت یا کالعدم سپاہ صحابہ کے کسی عہدے پر فائز نہ تھے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے بھی ملک اسحاق کو ’عالمی دہشتگرد‘ قرار دیا تھا اور ان کی تنظیم لشکرِ جھنگوی کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ پولیس کے مطابق قتل کئے گئے دس ملزمان کا تعلق القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔
پولیس مقابلے کے بعد پنجاب میں سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے ۔ ملک اسحاق اور غلام رسول شاہ کے گھر کے سامنے پولیس کی بھاری نفری تعنیات ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک اسحاق اور غلام رسول شاہ کے قتل کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی ختم ہو جائے گی ؟
ملک اسحاق کو مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کرنا ایک نئی بحث کا آغاز ہو گا جو کئی اہم سوالات کو جنم دے گا ۔