بنگلہ دیش میں ایک اور سیکولر بلاگر کو آج جمعے کے روز ایک گینگ نے چاقوؤں سے حملہ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔ رواں سال اس جنوبی ایشیائی ریاست میں کسی سیکولر بلاگر کا یہ چوتھا قتل ہے۔
نیلوئی چکرابرتی کو جو اپنا قلمی نام نیلوئی نیل استعمال کیا کرتے تھے، اُن کے گھر پر قتل کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ایک مسلح گینگ نے نیلوئی کے گھر پر حملہ کیا اور چاقوؤں کے وار سے اُسے ہلاک کر دیا۔
بنگلہ دیش کے بلاگرز اینڈ ایکٹیوسٹ نیٹ ورک کے مطابق اُسے ایک عینی شاہد نے اس حملے سے متنبہ کیا تھا۔ اس نیٹ ورک کے سربراہ عمران ایچ سرکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’نصف درجن کے قریب لوگوں پر مشتمل مسلح گینگ نیلوئی نیل کے پانچویں منزل پر واقع اپارٹمنٹ میں زبردستی داخل ہوا اور اُسے چاقو مار مار کر ہلاک کر دیا۔ نیلوئی مسلم انتہا پسندوں کی ٹارگٹ لسٹ پر تھا‘‘۔
اُدھر بنگلہ دیش کی پولیس نے بھی اس خبر کی تصدیق کر دی ہے کہ چکرابرتی کو نصف درجن افراد پر مشتمل ایک گروپ نے بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کے محلے گوران میں قتل کر دیا ہے تاہم پولیس نے دہشت گردی کے اس واقعے کے پس منظر، اس کے پیچھے کارفرما عناصر اوراس کے مقاصد کے بارے میں کوئی تفصیلات بیان نہیں کی ہیں۔ ڈپٹی پولیس کمشنر منتشر الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا، ’’وہ چھ لوگ تھے اور انہوں نے چکرابرتی کے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھٹکایا اور یہ کہہ کر دروازہ کھلوایا کہ وہ اپارٹمنٹ کرائے پر لینا چاہتے ہیں‘‘۔ منتشرالاسلام نے مزید کہا حملہ آور نیلوئی نیل کو ایک کمرے میں لے گئے۔ اور وہاں انہوں نے اُسے ذبح کر دیا
پولیس ڈپٹی کمشنر نے مزید کہا کہ نیلوئی کی بیوی گھر میں موجود تھی لیکن انتہا پسند حملہ آوروں نے اُسے دوسرے کمرے میں بند کر دیا تھا۔
آصف محی الدین، جو ایک سیکولر بلاگر ہیں اورخود 2013ء میں مسلم عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں بچ گئے تھے، نیلوئی کو ایک ملحد، آزاد خیال بلاگر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نیلوئی کی پوسٹس کئی سائٹس پر شائع ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’نیلوئی مذاہب کے ناقد تھے اور وہ اسلام، ہندو مت اور بُدھ مت میں انتہا پسندی کے خلاف لکھا کرتے تھے اور وہ ایک استدلال پسند آرگنائزیشن کے بانیوں میں سے ایک تھے۔
اپنے ایک تازہ بلاگ میں، جو 3 اگست کو شائع ہوا، چکرابرتی نے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ ’’آخر مساجد کو کیوں ایئر کنڈیشنڈ کیا جا رہا ہے
بنگلہ دیش میں سیکولر بلاگرز پر مسلسل حملوں کو آزادیٗ رائے اور سیکولر ازم کے لیے بڑے خطرے کی نشاندہی سمجھا جا رہا ہے۔
بشکریہ
DW URDU