بلاوجہ
. . . .
اسد علی طور،،،
اسلام آباد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بینچ نے گیارہ ججوں کی اکثریت سے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کو پارلیمنٹ کی طرف سے عطا کردہ آئینی تحفظ کی توثیق کردی ہے جبکہ چھ ججوں نے اس اقدام کو غلط قرار دیا جن میں سے تین ججوں بشمول جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ پر اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا۔ ہمارے خوش کن ٹائی کوٹ میں ملبوس تجزیہ کار اور اینکرز جنہوں نے لباس کے نیچے خاکی نیکر اور بنیان زیب تن کررکھی ہے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے جبکہ دورس اثرات کی جانچ سے بے بہرہ سیاستدانوں نے اس فیصلے کو پارلیمینٹ کی بالادستی قرار دیا ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی ہی ایسا ہے؟
آخر ہمارے منتخب سیاستدانوں نے 17 فروری 1999 کو فوجی عدالتوں کے قیام کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو مشعلِ راہ کیوں نہ جانا؟ 17 فروری 1999 کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو کالعلدم کرتے ہوئے تجویز کیا تھا کہ حکومت تفتیش کے نظام کے نقائص دور کرکے یقینی بنائے کہ ریاست عدالت کے آگے دہشت گردی کے مقدمہ کا چالان تمام ثبوتوں کے ساتھ جمع کروائے اور پھر ماتحت عدلیہ ایک ہفتہ میں اس مقدمہ کا فیصلہ سنانے کی پابند ہوگی جبکہ سرکاری وکیل کو چاہیے وہ ایک دہشت گردی کی عدالت کے ایک جج کے آگے ایک وقت میں ایک ہی مقدمہ لے کر آئے اور اس کے فیصلہ کے بعد دوسرا مقدمہ لائے۔
بات ہار یا جیت کی نہیں یا صرف ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی نہیں۔۔ یہ فیصلہ پاکستان کی جمہوری اور آئینی سمت کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ سپریم کورٹ میں بیٹھے ہی ایک چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 4 جنوری 2012 کو بھٹو ریفرنس سنتے ہوئے حکومتی وکیل بابر اعوان کو تسلی دی تھی کہ فکر نہ کریں ملک میں فوجی عدالتوں کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے لیکن موجودہ چیف جسٹس ناصرالملک نے نہ صرف یہ راستہ دوبارہ کھول دیا ہے بلکہ انہوں نے اس فیصلے کے ذریعے فوج کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ بے شک 31جولائی 2009 کو سابق چیف جسٹس نے 3نومبر کے غیر آئینی اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ مارشل لاء کا باب ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا ہے لیکن ہم "غیرمعمولی” حالات میں ایسے انتہائی اقدام کو "کھلے دل” سے سننے کو تیار ہیں۔
تھا میر جن کو شعر کا آزار مر گئے
غالب تمہارے سارے طرفدار مر گئے
اس فیصلہ میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستانی پارلیمینٹ تو اپنے ووٹرز کے بنیادی انسانی حقوق کے دفاع سے ہاتھ اٹھا چکی تھی اب ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی عام شہری کے حقوق کے تحفظ کی اپنی آئینی ذمہٰ داری سے روگردانی کا فیصلہ کیا ہے۔ پچھلے سال سابق آمر جنرل مشرف کے خلاف غداری مقدمہ کے آغاز سے ہی سول ملٹری طاقت کے مرکز کے تعین کی جنگ کا آغاز ہوگیا تھا جس کا نقطہ عروج تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے دئیے گئے دھرنے تھے اور آخر میں فوج نے اپنی بالادستی منوا کر دم لیا۔ اب ملک کے تمام اندرونی اور بیرونی فیصلوں میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف حرفِ آخر کہتے سنے جاسکتے ہیں جس کا ایک ثبوت اکیسویں آئینی ترمیم بھی ہے لیکن اب سپریم کورٹ کے ہاتھوں اس کو حاصل ہونے والا عدالتی تحفظ فوج کا اثرورسوخ عدالتی ایوانوں تک پہنچنے کی نوید بھی دے رہا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے فوجی عدالتوں میں کیا برائی ہے ماتحت عدلیہ قوانینِ شہادت میں موجود سقم کی بنیاد پر بے رحم دہشت گردوں کو سزا دینے سے قاصر تھی اس لیے پشاور آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے سفاک حملے کے بعد پیدا ہونے والے غیر معمولی حالات میں یہ عدالتیں وقت کی ضرورت تھی پھر میں بےجا مخالفت کیوں کررہا ہوں؟ جناب بات اگر غیر معمولی حالات کی ہے تو کل کوفوج کسی بھی قسم کے غیرمعمولی حالات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو ان کو مداخلت کا جواز مہیا کردیں گے۔
1973 کا آئین پاکستان کے ہرشہری کو شفاف انصاف کی ضمانت دیتا ہے اور یہ ہر شہری کی شخصی آذادی کا بنیادی حق ہے جو پڑھے لکھے معاشروں کا اہم جزو ہے۔ جس طرح ہم اپنے تعمیر شدہ گھر میں کسی کمرے کی دیوار گرا کر اس کو ہال میں بدل سکتے ہیں یا ایک نیا بیت الخلاء تعمیر کرسکتے ہیں لیکن کبھی بھی گھر کی بنیادوں کو نہیں چھیڑ سکتے کیونکہ اس سے پوری عمارت کے ڈھے جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح آپ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف قانون سازی نہیں کرتے کیونکہ اس سے آپ آئین کی روح سے انحراف کرتے ہیں۔ یہ باریک مسئلہ یا تو منتخب عوامی نمائندے سمجھ سکتے ہیں یا قانون دان۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے وہ تو پہلے دن سے ایک ہی دلیل لے کر مداخلت کررہے ہیں کہ ریاست خطرے سے دوچار ہو تو آئین کے کاغد کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔
ہماری سطحی معلومات کے حامل تجزیہ کار یہ جانتے ہی نہیں کہ فوج نے ملٹری کورٹس کا مطالبہ پشاور آرمی پبلک اسکول حملہ کے بعد نہیں کیا بلکہ اگر وہ تھوڑی ریسرچ کرلیں تو ان کو پتہ چلے کہ دسمبر میں ہونے والے حملے سے کئی ماہ قبل اگست 2014 کو انگریزی اخبار دی نیشن یہ خبر دے چکا تھا کہ فوج حکومت پر فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے دباو ڈال رہی ہے کیونکہ فوجی جرنیل سول عدلیہ کو جواب دہ ہونا پسند نہیں کرتے۔ جب بھی وہ مبینہ دہشت گردوں کو عدالتوں میں پیش کرتے ہیں وہ ان سے ثبوت مانگتے ہیں جبکہ فوج چاہتی ہے کہ وہ جس کو دہشت گرد قرار دے عدالت اس کو "حتمی” تصور کرتے ہوئے صرف سزا سنانے کا "فریضہ” سرانجام دے۔ فوجی جرنیل نظامِ قانون کی روح کو ہی نہیں سمجھ پارہے تھے کہ عدلیہ کا نظام انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے نہ کے صرف سزا سنانے کا ایک خود کار "آلہ” ہے۔
اس فیصلے کو جاری کرتے وقت ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا جب سپریم کورٹ نے صبح صرف چار سطروں پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کیا تو فل کورٹ کے ممبر جسٹس جواد ایس خواجہ جو اگلے ہفتے صرف ایک ماہ کی مختصر مدت کے لیے چیف جسٹس بھی بننے والے ہیں نے اپنا پچیس صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ اردو ترجمہ کروا کر صحافیوں میں تقسیم کردیا جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا وہ اپنے لیے فل کورٹ سے مختلف سلوک کی خواہش رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔ کیا سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کے حق پر سمجھوتہ کرلیا ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے پارلیمینٹ کو اجازت دے دی ہے کہ وہ آئین کی بنیادی روح کے خلاف بھی قانون سازی کرسکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے ججز نے اپنے حلف میں عام شہری کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی جو قسم اٹھا رکھی ہے اس کی خلاف ورزی کی ہے؟ کیونکہ ہمیشہ ملک میں مارشل لاء لگانے کے وقت جو ایل ایف او کا حلف نامہ ججز لینے سے انکار کرتے ہیں اس کی ایک وجہ اس میں بینادی انسانی حقوق سلب کرنے کی شق بھی ہوتی ہے۔ کیا سپریم کورٹ نے جسٹس افتخار چوہدری کی جارحانہ خودمختار عدلیہ کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ اکیسویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے رضاربانی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بلاول بھٹو نے ٹویٹ کیا تھا کہ "پارلیمینٹ نے اپنا چہرہ بچانے کے لیے ناک کٹوا لی ہے” لیکن اب ججوں نے اپنا کونسا عضو کٹوا کر کیا بچایا ہے اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسد علی طور ڈان، کیپیٹل ٹی وی اور اے آر وائی نیوز سے وابستہ رہ چکے ہیں۔
پیشہ کے لحاظ سے پروڈیوسر ہیں اور فارغ وقت میں بلاگنگ بھی کرتے ہیں۔
اج کل اے آر وائی نیوز پر پروگرام آف دی ریکارڈ پروڈیوس کررہے ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نوٹ : ادارے کا کالم نگار کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں ، آپ کو اختلاف کا حق حاصل ہے اور آپ کی تحریر کو یہاں شائع کیا جائے گا
ibcurdu@yahoo.com