مہتاب عزیز
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بوسنیا کا دارلحکومت سراجیو نوے کی دھائی میں یورپی یونین کی آشیرباد سے سرب فوج کی بدترین دہشت گردی کا شکار رہا۔
بہت سے مسلمان سخت محاصرے اور خوراک کی کمی سے دم توڑ گئے، ہزاروں کی تعداد میں سربوں کی گولیوں اور بمبوں کا شکار ہوئے۔
سراجیو شہر کا کوئی گوشہ نہیں بچا تھا جس پر کسی گولی یا بم کا نشان ثبت نہ ہوا ہو۔
جنگ کے اختتام پر جب تعمیر نو کا مرحلہ شروع ہوا تو بے گناہ مارے جانے والوں کی یاد اور عالمی ضمیر پر ظنز کے لئے گولیوں اور بمبوں سے ہونے والے تمام چھید گلابی کنکریٹ سے بھرے گئے۔
سڑکوں اور عمارتوں پر موجود جگہ جگہ موجود یہ گلابی نشان سراجیو کے گلاب کہلاتے ہیں۔
اہل بوسنیا کہتے ہیں جہاں بھی گولی یا بم کا نشان ہے وہاں کسی کا خون بھی تو گرا تھا۔
یہ اُس خون کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
نوے کی دھائی میں جب یوگوسلاویہ کا خاتمہ ہوا تو یورپ میں مسلمان اکثریت کی واحد ریاست بوسنیا نے بھی دیگر ریاستوں کی طرح آزادی کا اعلان کر دیا۔
لیکن یورپ میں ایک مسلمان اکثریتی ریاست کا وجود ’’مہذب دنیا‘‘ کے ٹھیکیداروں کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں تھا۔
فرانس، برطانیہ اور امریکہ کی آشیرباد سے سرب اقلیت کے حقوق کو جواز بنا کر سربیا نے بوسنیا پر بھی حملہ کر دیا، اور تقریباً ستر فیصد حصے پر قبضہ کر کے وہاں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔
باقی 30 فیصد حصے میں موجود مسلمان شدید محاصرے کی زد میں آگئے۔ جو خوراک کی شدید کمی کے باعث درختوں کے پتے اور کچرے سے اشیا جمع کر کے کھانے پر مجبور تھے۔
اس عرصے میں 3 جولائی 1993 سے 9 جنوری 1996 کے دوران یورپی یونین نے ہوا سے خوراک گرانے کا دنیا کا سب سے بڑا آپریشن لانچ کیا۔
اس میں 12 ہزار پروازوں کے دوران 1 لاکھ 60 ہزار ٹن خوراک ہوا سے گرائی گئی۔
گرائی جانے والی تقریبا تمام ہی خوارک خنزیر کے گوشت (Pork meat) پر مشتعمل تھی۔ تاکہ یا تو مسلمان اسے استعمال نہ کریں، اگر کریں تو اُن کا حرام حلال سے ایمان اٹھ جائے۔
مسلمان درختوں کے پتے اور گھاس کھاتے رہے لیکن یورپی یونین کی یہ امداد استعمال نہیں کی۔
جنگ کے خاتمے پر بوسنیا کے دارلحکومت سراجیو میں اس امداد پر طنز کے لئے ایک یادگار تعمیر کی گئی ہے جسے کینڈ بیف موومنٹ کا نام دیا گیا۔