پاکستانی فلم "مور” سینماؤں کی زینت بن گئی۔

کوکب جہاں

کراچی

——-

moor4

ایک طویل انتظار کے بعد فلم "مور” بالاخر چودہ اگست کو پاکستان کے سینماؤں کی سکرینوں پر آگئی۔ فلم کے ڈائرکٹر اور رائٹر جامی محمود ہیں جبکہ پروڈیوسر مانڈوی والا انٹر ٹینمنٹ اور آذاد فلم ہیں۔

جامی کو یہ فلم بنانے کا خیال دوہزار سات میں بلوچستان ریلوے کی خراب صورتحال دیکھنے کے بعد آیا۔

مور جس کے معنی ماں کے ہیں دراصل بلوچستان کے بتدریج ختم ہوتے ہوئے ریلوے نظام سے متاثر ہونے والے ایک خاندان کی مشکلات کی کہانی ہے۔ فلم میں ان بدعنوان عوامل کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جن کے سبب وہاں کا ریلوے نظام متاثر ہورہا ہے۔

فلم کی کہانی بلوچستان کے ایک چھوٹے سے قصبے کے اسٹیشن ماسٹر واحد ( حمید شیخ) کی ہے جو ریلوے اسٹیشن کے بند ہونے کے بعد نہ صرف مالی مشکلات کا شکار ہے بلکہ ان عناصر کے خلاف بھی بر سر پیکار ہے جو ریلوے کے انجن چرانے اور زمینوں کو بیچ کر رہائشی کالونیاں اور بس اسٹیشن بنانے میں ملوث ہیں۔ سب سے ذیادہ تکلیف کا سامنا اسے تب کرنا پڑتا ہے جب اس کی بیوی پلوشہ (سمعیہ ممتاز) کی موت کی دو دن بعد ہی اس کا بھائی ظاہر (شبیر رانا) جو ریلوے پیچنے کے کرپٹ نظام کا حصہ ہے زمین پیچنے کے لئے واحد سے کاغذات پر دستخط لینے کے لئے آ پہنچتا ہے۔ واحد کا اکلوتا بیٹا احسان (شاز خان) جو کہ فلم کے پوسٹر کے مطابق ہیرو ہے اپنے باپ کے دگرگوں مالی حالات اور علاقے میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے بعد کراچی کا رخ کرتا ہے جہاں وہ پیسہ کمانے کی فکر میں جعلی ڈگریوں کا کام شروع کردیتا ہے۔ واحد کو اپنی بیوی سے کیا گیا وعدہ یاد ہے کہ زمین جو ہماری ماں ہے اس کی حفاظت کرنا۔ کیا واحد اپنی بیوی سے کئے گئے وعدے پر قائم رہتا ہے اور کیسے اپنی اولاد کو اس کاروبار سے باہر نکالتا ہے فلم کا کلالئمکس ہے۔

فلم کا ایک جاندار کردار بگو (عبدالقادر) کا ہے۔ یہ فلم کا واحد کردار ہے جس نے فلم میں کچھ مزاح پیدا کیا ہے۔ فلم کی دیگر کاسٹ میں سونیا حسین اور اشیتا سید اور نیر اعجاز ہیں۔

فلم کا کیمرہ ورک انتہائی جاندار ہے۔ پاکستان کے دیگر ہدایتکاروں کے مقابلے میں جامی اپنے کرداروں کےچہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات کو ذیادہ سے ذیادہ فلمانے پر توجہ دیتے ہیں، جو کہ فلم کا ایک جزو لازم ہے۔ فلم کی سینماٹوگرافی بین الاقوامی معیار کی ہے، خاص طور پر کچہ سین ایسے تھے جن کا ہم کسی بھی ہالی وڈ فلم کے ساتھ موازنہ کرسکتے ہیں جیسے وحید کے دماغ میں چلنے والے پچپن سے لے کر موجودہ زندگی تک کے خیالوں کی بازگشت۔

سٹوری لائن کہیں کہیں ڈولتی اور بے ربط ہوتی محسوس ہوئی مگر اسے جلد ہی سنبھال لیا گیا ہے۔

شاید فلم میں ڈائیلاگ سے ذیادہ تصویری فوٹیج پر ذور دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اگر ایسا تھا تو ایسے سین کا انتخاب کیا جاتا جو کہانی کو مزید واضح کرتے۔ کیونکہ ڈائیلاگ کی کمی کی وجہ سے کہیں کہیں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔
اپنی تمام تر خوبیوں اور کمزوریوں کے ساتھ مور اپنے موضوع کےلحاظ سے ایک کمرشل فلم کے مقابلے میں آرٹ موووی سے ذیادہ قریب ہے۔

فلم کی موسیقی مشہور بینڈ سٹرنگز نے ترتیب دی ہے جبکہ گانے انور مقصود نے لکھے ہیں۔ جامی ماضی میں اسٹرنگز کی میوزک ویڈیو کی ڈائرکشن بھی دیتے رہے ہیں۔ یہ بات بھیی قابل ذکر ہے کہ اس فلم کو بنانے کے دوران ہی جامی نے پچھلے سال ریلیز ہونے والی فلم اوٹو ون بھی بنائی۔ اس لئے او تو ون میں جامی بہت سی خامیوں پر قابو پاتے بھی نظر آتے ہیں۔

عام طور پر آرٹ فلم کو ایک ڈرامہ کے طور پر فلمایا جاتا ہے، مگر جامی نے ایک آرٹ فلم کے موضوع کو بڑی سینماٹوگرافی کے ساتھ پیش کرکے پاکستانی فلم میں ایک نئی جہت ڈالی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے