آزادکشمیرانتظامی تقسیم کی بدترین مثال کیوں؟

اگر کسی اچھی کمپنی یا ادارے کا 35 فیصد سے زائدبجٹ اگر اس کے انتظامی امور پر خرچ کیا جائے تو وہ ادارہ ناکام تصور کیا جاتا ہے ۔اس بنیاد پر اگر آزاد ریاست جموں کشمیر کو دیکھیں تو اس کی حیثیت ایک دیوالیہ ریاست کی ہو گی کیونکہ اس کے بجٹ کا 75فیصد حصہ انتظامیہ کی تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق آزاد حکومت کی حیثیت ایک لوکل اتھارٹی کی ہے جس کا کام یہاں کے بنیادی معاملات کو دیکھنا ہے لیکن اس لوکل اتھارٹی نے ایک سب اتھارٹی قائم کر کے اپنے اور نوکر شاہی کی عیاشیوں کا ساماں کیا ہے۔5134 مربع میل رقبے اور 40 لاکھ کی آبادی پر مشتمل خطے کو انتظامی بنیادوں پر دس اضلاع میں تقسیم کر کے ایک طبقے کو نوازنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

1947 میں جب کشمیر کی تقسیم ہوئی تو ریاست کا یہ حصہ سوا دو اضلاع پر مشتمل تھا اب اس کے آج 10 اضلاع ہیں اور یہ اضلاع انتظامی ضروریات کو پورا کرنے نہیں بلکہ سیاسی خانوادوں کی خواہشات پر بنائے گئے ہیں اور خواہشات کی تکمیل اس خطے کیلئے تباہ کن صورت اختیار کر چکی ہے۔

1947 میں جب کشمیر کی تقسیم ہوئی تو ریاست کا یہ حصہ سوا دو اضلاع پر مشتمل تھا اب اس کے آج 10 اضلاع ہیں

علاقے کی انفراسٹریکچر کی بہتری اور کمیونیکیشن کومضبوط کرنے کے بجائے ترقی اور حقوق کے نام پر عوام کے ٹیکسز پر نوکر شاہی کی ایک فوج ان پرمسلط کر دی گئی۔ایک خطہ جس کے انتظامات کیلئے ایک کمشنر کافی تھا وہاں ایک لمبی چوڑی حکومت اور وسیع نوکرشاہی (بیوروکریسی) مسلط کی جا چکی ہے، جوخطے کیلئے کسی طور سود مند نہیں ہے۔


آزاد کشمیر کا موازنہ پاکستان کے نظام سے کیا جائے تو یہ خطہ پنجاب کے ایک ضلع راولپنڈی کے برابر ہے
۔ گو کے راولپنڈی ضلع کا رقبہ کم ہے تاہم آبادی کے اعتبار سے یہ آزاد کشمیر سے خاصا بڑا ہے اس بنیاد پر دیکھا جائے تو آزاد کشمیر میں انتظامی بنیادوں کے بجائے سیاسی بنیادوں پر کی گئی اضلاع کی تقسیم سے انتظامی ڈھانچہ بے ڈھنگ ہو چکا ہے۔ 5134 مربع میل کے رقبے پر محیط آزاد کشمیر کی آبادی 40 لاکھ ہے اسے انتظامی طور پر تین ڈویژنز ، دس اضلاع ، 32تحصیلوں ، 189 یونین کونسلز پر تقسیم کیا گیا ہے۔اس کے نظام کو چلانے کیلئے 29 نمائندے قانون ساز اسمبلی کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں جبکہ انتظامی امور نمٹانے کیلئے پولیس میں ایک آئی جی، تین ڈی آئی جیز، تین ایس ایس پیز، دس ایس پیز اور انسپکٹروں سمیت 48 پولیس اسٹینشز میں پولیس کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

اسی طرح تین کمشنرز ، درجنوں ڈپٹی کمشنرز ،پچاسیوں اسسٹنٹ کمشنرز ، پچاسیوں تحصیلدار و نائب تحصیلدار اور ضلعی عدلیہ میں موجود سینکڑوں کی تعداد میں ججز اس چھوٹے سے خطے کو چلانے کیلئے تعینات ہیں جبکہ سیکرٹریز اور ڈپٹی کمشنرز لیول کی ایک بڑی تعداد صرف تنخواہیں لینے کیلئے بھی موجود ہے اور ان کی تنخواہوں کی مد میں ماہانہ اربوں روپے جاتے ہیں جبکہ ضلع راولپنڈی 5,286 مربع کلومیٹر کے رقبے پر 5,405,633 کی آبادی پر مشتمل ہے ۔اس میں قومی اسمبلی کے سات حلقے جبکہ صوبائی اسمبلی کے 14 حلقے اور ایک سو بیس یونین کونسلز ہیں جبکہ اس کا انتظام چلانے کیلئے ایک ڈی سی او، ایک آر پی او اور تین ایس پیز اور ضلعی عدلیہ موجود ہیں۔
آزاد کشمیر کی چالیس لاکھ آبادی پردس اضلاع بنائے گئے ہیں جسے کوئی بھی عقل و فہم رکھنے والا درست نہیں سمجھتاہے۔

تقسیم کے وقت آزاد کشمیر سوا دو اضلاع پر مشتمل تھا جو اب دس اضلاع بن چکے ہیں۔ضلع میرپور سے تین اضلاع، آدھے ضلع پونچھ سے چار اضلاع جبکہ مظفرآباد سے بھی چار اضلاع بنائے گئے ہیں۔(1010 مربع کلومیٹر علاقے کے ضلع میر پور کی آبادی456,200ہے جبکہ کوٹلی کا رقبہ 1,862مربع کلومیٹر اور آبادی 774,194ہے، بھمبر کا رقبہ 1,516 مربع کلومیٹر اور آبادی 420,624 ہے، مظفرآباد کا رقبہ 1,642مربع کلومیٹراور آبادی 650,370 ہے،جہلم ویلی کا رقبہ 854 مربع کلومیٹر اور آبادی 230,529ہے۔ نیلم کا رقبہ 3,621مربع کلومیٹر اور آبادی 191,251ہے ، پونچھ کا رقبہ 855 مربع کلومیٹر اور آبادی 500,571 ، حویلی کا رقبہ 500 اور آبادی 152,124، باغ کا رقبہ 768 مربع کلومیٹراور آبادی 371,919، سدھنوتی کا رقبہ 569 مربع کلومیٹر اور آبادی 297,584 ہے)۔

یوں رقبے اور آبادی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ان میں سے کوئی بھی ضلع محسوس نہیں ہوتا بلکہ یہ تحصیل اور یونین کونسل کے برابر محسوس ہوتے ہیں۔آزاد کشمیر کے اس انتظامی ڈھانچے پر جب ممبر اسمبلی سردار خالد ابراہیم سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ سیاسی بنیادوں کے بجائے انتظامی بنیادوں پر اضلاع بنائے جانے چاہئیں تھے۔آج بھی اگر انتظامی طور پر بہتر فیصلے ہوں تو بہتری آ سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے اگر لوکل گورنمنٹ بنتی ہے تو اس کیلئے فنڈز کہا ں سے آئیں گے اور کس طرح کام کریگی ؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

اسی طرح سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر منظور گیلانی کا کہنا ہے کہ آزاد حکومت لوکل گورنمنٹ کے یونٹس کو سیاسی بنیادوں پر ضلع کا درجہ دیتی گئی اور شائد یہ بے ڈھنگ تقسیم اس خطے کو مقبوضہ کشمیر کے برابر لانے کیلئے کی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خطہ پاکستان کے ضلع مانسہرہ سے بھی چھوٹا علاقہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تقسیم کے وقت اڑھائی اضلاع تھے جن کے ہم نے دس اضلاع بنا دئے ۔ اڑھائی کے پانچ اضلاع بناتے تو کچھ سمجھ آتی ہے دس اضلاع بنانا انتہائی غیر متعلق بات ہے۔

موجودہ انتظامیہ خزانے پر غیر ضروری بوجھ قرار دیتے ہوئے تجزیہ کار ارشاد محمود کا کہنا ہے کہ اگر سڑکیں درست ہوں تو ایک ڈویژن کی کل مسافت دو گھنٹے سے زیادہ نہیں ہے۔ گورننس اور کمیونیکیشن کو بہتر بنانے کے بجائے انتظامیہ میں کچھ لوگوں کو لا کر ریاست پر بوجھ بڑھایا جاتا ہے۔سابق بیوروکریٹ سردار صدیق کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ اضلاع سیاسی بنیادوں پر بنے لیکن یہ وہاں کے عوام کی مانگ بھی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں ایک کمی پائی جاتی ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے اثرات پر اسٹڈی نہیں کی جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بطور آزاد کشمیر یعنی ایک ریاست کے طور پر دیکھنا ہو گا اگر اسے کسی شہر سے تشبیع دیں گے تو سوال اٹھے گا کہ 5 ہزار مربع میل اور چالیس لاکھ آبادی کی الگ ریاست ہو سکتی ہے؟

آزاد کشمیر کے موجودہ ڈھانچے پر سینئر صحافی عارف عرفی کہتے ہیں اس خطے کے انتظامی امور کیلئے ایک ڈپٹی کمشنر کافی تھا لیکن اس وقت آزاد کشمیر میں دس ڈپٹی کمشنرز کی تعینات ہیں اور 150 سے زائد ڈپٹی کمشنرز کی کیڈر(Cadre ) تیار کر رکھی ہے جو اس وقت بطور ڈپٹی کمشنر اپنی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ خلیل قریشی نے غیر اعلانیہ طور پر ایک گروپ بنایا جسے ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ بنایا جس نے اپنی اجارہ داری قائم کی اور وہ گروپ وزیر اعظم کی بات تک نہیں سنتا .اسی گروپ کی اجارہ داری پر وزیر اطلاعات مشتاق منہاس نے کہا تھا کہ آزاد کشمیر میں نوکر شاہی (بیوروکریسی) کی حکومت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں بجٹ کے استعمال کا سوال نہیں اصل سوال ہے کہ ہم اپنے وسائل کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟

آزاد کشمیر کے مذکورہ صاحب الرائے حضرات نے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ آزاد حکومت کو گورننس پر توجہ دینی چاہئیے،بجٹ کو ایڈمنسٹریشن کی تنخواہوں کے بجائے ڈیویلپمنٹ اور کمیونیکیشن کی بہتری پر خرچ ہوناچاہئیے تاکہ مرکز سے رابطے مضبوط ہوں اور سیاسی لوگوں کو سہولت دینے کے بجائے عوام کو سہولت دینے کے اقدامات دئے جانے چاہئیں۔ آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کیلئے تب مثالی بنایا جا سکتا ہے جب یہاں کا نظام اور انفراسٹریکچر بہتر ہو گا۔

آزاد حکومت کو چاہئیے کہ ریاست کی بہتری کیلئے کچھ بڑے اقدامات اٹھائے جائیں ۔اضلاع اور انتظامیہ کو کم کر کے انفراسٹریکچر بالخصوص شاہرات پر توجہ دی جائے تاکہ سفری مشکلات ختم ہو سکیں۔ وقتی طور پر شائد یہ اقدام حکومت کیلئے سیاسی طور پر اچھا نہ جانا جائے تاہم ریاست کے اس حصے کے مستقبل کیلئے انتہائی ضروری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے