جنسی تشدد کی سزا عمر قید

shutterstock_182053364

پاکستان کی قومی اسمبلی کی قانون و انصاف سے متعلق قائمہ کمیٹی نے بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمات میں مجرموں کی سزائیں مزید سخت کرکے انھیں عمر قید تک کرنے کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔

قانون وانصاف سے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس محمود بشیر ورک کی سربراہی میں جمعرات کو پارلیمان ہاؤس میں ہوا۔

اجلاس میں بچوں کے حقوق کے قومی کمیشن کا ترمیمی بل پیش کیا گیا۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد اب یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد اسے سینیٹ میں بھجوا دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی سیکنڈل کی ویڈیو منطر عام پر آنے کے بعد قانون شہادت کے قانون کو مزید بہتر بنانے کی سفارش کو بھی منظور کر لیا گیا ہے۔

اجلاس میں یہ تجویز دی گئی کہ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے مجرم کی سزا دس سال سے بڑھا کر عمر قید تک کر دی جائے۔

اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ایسے واقعات میں مجرموں کی سزا میں اضافہ ٹھیک ہے لیکن اس سے زیادہ اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ ان سزاؤں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

اس کے علاوہ اس میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے واقعات میں ملوث افراد کی گرفتاری فوری طور پر عمل میں لانے کے اختیارات دیے جائیں کیونکہ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ملزمان ایسے واقعات میں فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔

بچوں کے حقوق کے قومی کمیشن کے بل میں کسی بھی جرم میں بچوں کو استعمال کرنے کے حوالے سے بچوں کی عمر میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے تحت اگر کوئی بھی بچہ جس کی عمر دس سال سے لے کر 14 سال تک ہو گی اور وہ کسی جرم میں پکڑا جائے گا تو اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ اس سے پہلے یہ عمر سات سال سے دس سال تک تھی۔

اجلاس میں گھریلو ملازموں کو تشدد کا نشانہ بنانے میں ملوث افراد کو تین سال تک قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ اس ترمیمی بل میں بچوں کو ورغلا کر ان کی برہنہ ویڈیو فلمیں بنانے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔

اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ایسے واقعات میں عدالتوں کی جانب سے مجرموں کو سزا دینے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے