معروف ہدایت کار شعیب منصور کی فلم ’ورنہ‘ کو پاکستان میں بھی ریلیز کی اجازت مل گئی ہے۔
فلم پر پابندی کا معاملہ ۱۳ نومبر کی شام کو شروع ہوا جب مرکزی سینسر بورڈ کی جانب سے یہ اعتراض سامنے آیا ہے کہ ریپ جیسے ایک حساس معاملے کو صوبے کے گورنر جیسے ادارے سے جوڑا گیا ہے۔ اعتراض کرنے والے پانچ ممبران میں اکبر جان مروت، سفینہ صائمہ کھر، فاروق حسن، آئی ایس پی آر کے لیفٹننٹ کرنل عمیر، اور آئی ایس آئی کے لیفٹننٹ کرنل مشتاق شامل تھے۔
اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد اگلے دن فلم کا فل بورڈ ریویو طلب کیا گیا تھا جس کے بعد سی بی اف سی نے فلم میں موجود کئی حصوں کو حذف کرنے کے بعد ریلیز کی اجازت دے دی تھی ۔ ویب پورٹل دھنک کے مطابق سی بی ایف سی نے ’ورنہ‘ سے گورنر، ڈی جی ایف آئی اے اور وزیر داخلہ کی عہدے ہٹانے کی فیصلہ دیا تھا جس پر پروڈیوسر کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے بعد فلم کی کہانی تقریبا ختم ہی ہوجاتی۔
فلم سے کانٹ چھانٹ کی ان تجاویز کو نامنظور کرنے کے بعد کل پروڈیوسر شعیب منصور نے وزارتِ اطلاعات میں اپیل جمع کروادی جس کی شنوائی کرتے ہوئے وزارت نے فلم کو بغیر کسی ردو دبدل کے ریلیز کی اجازت دے دی ہے۔ فلم کی وقت پر ریلیز پر وزیر ملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کی کاوشوں کا بھی بڑا دخل ہے۔
یہاں یہ بات ھی قابل زکر ہے کہ ورنہ کو پنجاب اور سندھ کے فلم سینسر بورڈ نے بغیر کسی اعتراض کے کلیئر قرار دے دیا تھا لیکن مرکزی فلم سینسر بورڈ کے اعتراض کے بعد پنجاب فلم سینسر بورڈ آج شام چار بجے دوباری فلم کا ریویو کرے گا جس کی صدارت بورڈ کی چیئر پرسن اداکارہ زیبا بیگم کریں گی۔ فلم کے ڈسٹری بیوٹرز کا کہنا ہے کہ اس صورت میں فلم کو رات سے پہلے ریلیز کی اجازت نہیں مل سکتی اور ورنہ پورے پاکستان میں لگنے کے باوجود کم از کم آج پنجاب میں نہیں لگ پائے گی۔ پنجاب پاکستانی سینما کا کل اسی فیصد ہے۔
ویپ پورٹل دھنک کے مطابق پنجاب فلم سینسر بورڈ کے وائس چیئرمین عثمان پیرزادہ کا کہنا ہے کہ ’میں وفاقی سینسر بورڈ کی
موجودگی کے خلاف ہوں کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد فلم سینسر ایک صوبائی معاملہ ہے۔‘
اس ترمیم کے باوجود پاکستان میں ابھی تک ایسی کوئی روایت نہیں ہے کہ ایک فلم کو پنجاب اور سندھ کے سینسر بورڈ مرکزی سینسر بورڈ کے اعتراض کے باوجود ریلیز کی اجازت دے دیں۔
ورنہ کی کہانی ایک ایسی خاتون کے گرد گھومتی ہے جو جنسی زیادتی کا شکار ہونے کے بعد انصاف کے لیے لڑرہی ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے کے بعد انصاف کے لیے لڑرہی ہے اور اسے زیادتی کا نشانہ بنانے والا شخص پنجاب کے گورنر کا بیٹا ہے۔
فلم میں معروف اداکارہ ماہرہ خان مرکزی کرادر ادا کررہی ہیں۔