تم بھول گئے نا

child abuse

تحریر : آصف شہزاد

مینگورہ سوات

آصف شہزاد ، سوات
—————–
آخر آپ بھول ہی گئے کہ ضلع قصور میں تین سو کے قریب بچوں کے کیساتھ جنسی درندگی ہوئی تھی اور آپ بھول گئے ہونگے کہ اس دلخراش واقعے پر آپ لوگوں کی غیرت نے جوش بھی کھایا تھا۔۔۔؟؟

اور واقعے کے خبریں آتے ہی پہلے روز سے آپ لوگوں کا انتہائی رد عمل بھی سامنے آیا تھا۔!!

آپ بھول گئے ہیں کہ آپ لوگوں نے زمین و آسمان سر پہ آٹھا لیا تھا۔۔!!

آپ ہی لوگوں نے پنجاب حکومت اور پولیس کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرائے۔۔!!

آپ ہی لوگوں نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچادی ۔۔!!

آپ ہی لوگوں نے میڈیا کو مجبور کیا اس معاملے کو کوریج دینے کیلئے۔۔!!!!

آپ ہی لوگوں نے مطالبات کئے کہ ۔۔۔!!!

قصور کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر اُٹھایاجائے۔

قصور کے قصور واروں کو سیاسی مداخلت کی پرواہ کئے بغیر سخت سے سخت سزا دی جائے۔

متاثرین کے دکھوں کا آزالہ کیا جائے۔

متاثرین کو انصاف اُن کی دہلیز پر دیا جائے۔

اس معاملے کو سیاسی چالبازیوں سے ماورا ہرصورت نتیجے پر پہنایا جائے۔

انصاف کے تقاضوں کو پامال ہونے سے بچایا جائے۔

اور اگر عدلیہ سیاسی مجبوریوں کا شکار ہے تو پاک آرمی کو اپیل کی گئی کہ فوجی عدالت اس معاملے میں مداخلت کرے۔
بھائی ٹھیک ہے۔۔!!
کہ آپ لوگوں نے جو کیا بہت اچھا کیا اور ایسے ہی کرنا چاہئے تھا کیونکہ ظلم کے خلاف بروقت آواز اُٹھانی چاہئے۔

اور سچ کہوں تو آپ لوگوں کا موثر رد عمل مسلے کو اجاگر کرنے میں انتہائی نتیجہ خیز رہا۔

کیونکہ آپ لوگوں کے رد عمل کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک ہی دن میں تمام بین الاقوامی تنظیمیں بشمول نجی حلقیں اور مواصلاتی ادارے حرکت میں آگئے تھے۔

آفرین ہے جناب آفرین !!  اور شاباش ہے تم لوگوں کو ۔۔۔!!!

لیکن ٹہرو اور سُنو۔۔۔!!!

غور سے سُنو کہ کیا قصور کے واقعۂ پر صرف واویلا کرنا ہی کافی تھا یا مجرموں کو سزا دلوانے تک جدوجہد بھی مقصود ہے؟؟ کیا یہ واقعہ ہم سب کیلئے لمحۂ فکریہ نہیں ؟ کیا سر جوڑ کر لائحہ عمل مرتب کرنے کا مقام نہیں کہ متاثرین کو انصاف ملکر ہی رہیگا؟؟ کیا یہ آپ کے ضمیر کا فیصلہ ہے کہ مجرموں کو "بِکاؤ” پولیس اور "ملوث” حکومت کے حوالے کردیا جائے؟؟ کیا آپ کا یہی رویہ اس قابل ہے کہ مسائل کے حل میں مثبت کردار ادا کرسکے؟؟

آپ لوگ معاشرتی مسائل کو بھی معمول کے رسم و رواج سمجھ کر "نبھاتے” ہو حالانکہ معاشرتی مسائل کا حل ڈھونڈنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے!

قصور واقعے پر بھی آپ لوگوں نے بالکل کسی پرائے محلے دار کی فوتگی جیسا رویہ اختیار کیا۔ مطلب قبر تک سب نے شرکت ضروری سمجھی اور پسماندگان کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے اُن کو حاضری بھی لگائی مگر دفن ہوتے ہی اپنی دنیا اپنے رنگ !!
"ھنی سنگھ” کے گانے اور "فیس بک” پر حدیثوں اور اقوال کی شیئرنگ !!

مجھے ایک بات بتاؤ۔۔!!!!

اگر معاشرتی مسائل پر تم لوگوں کا رد عمل پائدار ہونے کے بجائے جذباتی ہوتا ہے تو کیوں کرتے ہو رد عمل؟؟ مجھے یہ بتاؤ کہ تم لوگ اتنا شور کیوں مچاتے ہو؟؟ جب تم ثابت قدم ہی نہیں رہ سکتے تو آگے کیوں بڑھتے ہو ؟؟ جب تم کو اپنی عیاشیوں سے فرصت نہیں تو آواز کیوں اُٹھاتے ہو ؟؟ جب تم میں ظلم کے خلاف لڑنے کی توان اور قوت نہیں تو جوش میں کیوں آتے ہو؟؟ جب تم کو کلمۂ حق کہنے کا حوصلہ نہیں تو بہادری کی اداکاری کیوں کرتے ہو؟؟جبکہ تمہاری غیرت خصی ہوچکی ہے تو جرأت کیوں کرتے ہو ؟؟جب تم مخلص ہی نہیں ہو تو پارسا بننے کا فائدہ ہی کیا؟

کہاں گیا وہ احتجاج ؟  بھول گئے نا۔۔۔!!!

دراصل آپ لوگ کبھی مخلص ہی نہیں ہوتے بلکہ آپ لوگوں کو شور مچانے کیلئے کوئی نہ کوئی موضوع درکار ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آپ سیاسی خرمستیوں میں مست  اپنی اپنی سیاست چمکانے کیلئے ہی معاملات اٹھاتے ہو !  اور پھر اپنی خود ساختہ دانشوری جمانے کیلئے واویلا کرتے ہو یا اپنی دلفریب پارسائی دکھانے کیلئے لعن و تشنیع کرتے ہو۔۔۔!!

ایک بات اور ۔۔۔!!!

کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ لوگوں کے احتجاج سے اُن غریبوں کتنا حوصلہ بڑھا ہوگا ؟؟

ظلم کیخلاف ثابت قدم رہنے کیلئے وہ کتنے دلیر بنے ہونگے؟؟

ارے اندازہ تو لگائیں کہ کتنے خواب دیکھے ہونگے اُن غریبوں نے؟؟

کتنا اطمنان ملا ہوگا ان لوگوں کو کہ اللہ تعالٰی نے اُن کی آہ و فریاد سُن لی ؟؟

ظالم کے سامنے سینہ چھوڑا کرنے کی کتنی قوت اور ہمت ملی ہونگی  ؟؟

انصاف ملنے کی امید پر اُٹھتے گُرتے کتنی دعائیں دی ہونگی تم لوگوں کو ؟؟

لیکن بے سود ۔۔!!!!!

اور آپ اندازہ لگائیں کہ اُن متاثرہ بچوں کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی جوکہ ایک طویل مدت سے نفسیاتی کشمکش کے شکار ہیں !!

بالکل ایسے ہی نا۔۔!!! جیسےآپ کا بچہ روتے ہوئے اور ھچکیاں لیتے ہوئے گھر میں داخل ہوتا ہے اور آپ کو موجود پاکر دوڑتے ہوئے آپ سے لپکتا ہے اور آپ سے گویا ہوتا ہے کہ فلاں کا بیٹا مجھے مارتا ہے اور آپ کا بازو پکڑ کر اس امید پر اپنی ھچکیوں اور سسکیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے کہ اب میرا "ابو” حساب برابر کردیگا۔

لیکن قومی رویے نے قصور کے بچوں کی ھچکیاں اور سسکیاں دُگنا کردی۔۔۔!!!

تو اب یہ کہ۔۔!!
اپنی اپنی دنیا میں مگھن ، ذہنی عیاشی کے سرشاریوں میں گُم ، خودپسندی کے سُریلے مدُھرلے میں مست ، فیس بکی غیرت کے بے تاج بادشاہ ، قومم پرستی کے دلیراور بہادر سپوت ، کمزور حافظے والی جذباتی قوم سے مخاطب ہوکر میں اتنا ہی کہونگا کہ ۔۔۔!!
"دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے