آزاد کشمیرکی صحافت کہاں کھڑی ہے؟

2017 کے آخری دو دن صحافت کی نئی جہت (ڈیجیٹل جرنلزم)کے بارے میں سیکھنے میں گزرے۔ اس دوران آزاد کشمیر کے تمام علاقوں سے آئے ہوئے نوجوان صحافیوں سے تعارف بھی ہوا۔ کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹر نیشنل ریلیشنز نے سال کے آخری دنوں اس ورکشاپ کا انعقاد کیا ۔ جہاں سدھنوتی کے سوائے تمام اضلاع سے لوگ موجود تھے ان دو دنوں میں جہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملا وہیں آزاد کشمیر میں صحافیوں کے حالات اور صحافت کو درپیش چیلنجز کا ادراک بھی ہوا۔ مختلف سیشنز کے دوران صحافیوں نے اپنے تجربات بیان کئے ۔ ان تجربات کی روشنی میں جہاں مسائل کا ادراک ہوا وہیں اس بات پر خوشی بھی ہوئی کہ نئے آنے والے صحافی ان بتوں کو توڑ رہے ہیں جو ہمارے معاشرے نے خود ساختہ طور پر بنائے ہیں۔

ورکشاپ میں صحافیوں کے بیان کردہ تجربات سے معلوم ہوا کہ آزاد کشمیر میں صحافت کو برادریوں میں قید کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔میرپور ڈویژن کے ایک دوست نے بتایا کہ انہیں اپنی ہی برادری کے ایک ممبر اسمبلی کے حوالے سے حقائق سامنے لانے پر برادری دبائو کے ساتھ خاندان اور گھر سے بھی دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی طرح مظفرآباد کے ایک صحافی نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی غیر حاضری یا ٹھیکیداری سسٹم پر ایک اسٹوری کی ۔ اس میں مظفرآباد پریس کلب کے ایک عہدیدار (اس وقت کے جب اسٹوری کی گئی تھی) کی اہلیہ بھی اس ٹھیکہ سسٹم میں شامل تھیں اور وہ صاحب سیخ پا ہوئے اور مذکورہ صحافی کی رکنیت معطل کروا دی اور ایک عرصے تک ان کو پریس کلب داخلے پر پابندی کا سامنا بھی رہا۔ (پروگرام کے دوران کئی واقعات سننے کو ملے تاہم بطور ریفرنس ان دو واقعات کو بیان کر رہا ہوں)۔

ان واقعات سے علم ہوا جہاں صحافیوں کو مشکلات کا سامنا ہے وہیں اس شعبے میں قدم رکھنے والے لوگ ذاتی تعلقات اور مفادات سے بڑھ اپنے فرائض کو ترجیح دے رہے ہیں اور پروفیشنل طریقے سے کام کی کوشش کر رہے ہیں اس کے علاوہ مقامی ادارے بننے کی بدولت جہاں بیگار میں کمی آ رہی ہے وہیں سیکھنے کے زیادہ مواقع میسر آ رہے ہیں۔

ورکشاپ کے دوران بتایا گیا کہ آئندہ دور میں اگر صحافی رہنا ہے تو اس کے لوازمات کیا ہوں گے ،جہاں ہر شعبہ زندگی میں جدت آ رہی ہے وہیں صحافت میں بھی جدت آ رہی ہے اور اس جدید دور میں ایک جرنلسٹ کس طرح اپنی انفرادیت برقرار رکھ سکے گااور اس کیلئے بڑے چیلنجز کیا ہوں گے؟ ان تمام معاملات سے ورکشاپ کے ٹرینر جناب آفتاب اقبال نے بخوبی آگاہ کیا اور کسی لمحے بوریت کا احساس نہ ہونے دیا۔اسی طرح جلال الدین مغل نے بتایا کہ ڈیجیٹل اسٹوری کس طرح بنائی جاتی ہے اور پھر انتہائی کم وقت میں تمام شرکا سے اس کا عملی مظاہرہ کروایا جو مختصر ورکشاپ کے وقت کا بہترین حاصل ہے۔

پروگرام کے دوران جس چیز کی سخت کمی محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ تمام علاقوں سے لوگ موجود ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے تعارف نہ کر پائے ۔ اس کی بڑی وجہ جو جسے جانتا تھا فراغت کے دوران یا کھانے کی میز پر اسی کے ساتھ گپ شپ میں مصروف رہا ۔ کسی نے نئے دوست بنانے پر توجہ نہ دی یا ایک علاقے کے فرد نے دوسرے علاقے کے بارے میں جاننے کی کوشش نہ کی۔

کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز جہاں کئی دوسرے کام کر رہا ہے وہیں ایک اہم کام ریاست کے تمام حصوں کے صحافیوں اور سول سوسائٹی کو آپس میں مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔اس کے علاوہ مختلف مواقعوں پر آزاد کشمیر کے تمام علاقوں پر مشتمل صحافیوں کی تربیتی نشستوں کا اہتمام کرتا ہے ۔مذکورہ ورکشاپ کے انعقاد پر کے آئی آئی آر کا مشکور ہوں جنہوں نے اس چھوٹے سے خطے کے صحافیوں کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا اور عملی تربیت میں کردار ادا کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے