آصف محمود
اسلام آباد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم کب تک دلِ خوش فہم کو یہ کہہ کر تسلیاں دیتے رہیں گے کہ عمران خان خود تو بہت اچھے ہیں ،یہ ساری خرابیاں ان مشیروں کی پیدا کردہ ہیں جو عمران خان کو گھیرے ہوئے ہیں۔کیا وقت آ نہیں گیا عمران خان کی ذات سے وابستہ خواہ مخواہ کی یہ خوش فہمیاں ایک طرف رکھ کر ان کی شخصیت اور نفسیات کا ایک معروضی مطالعہ کیا جائے؟
عمران خان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی شخصیت کے نفسیاتی پہلوؤں کا ایک جائزہ لیا جائے۔اس ضمن میں ان کے چند ارشادات گرامی بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ایک روز فرمایا:’’ میں نے تو کبھی اپنے باپ سے بھی پیسے نہیں مانگے تھے‘‘۔یہ بیان ان کی نرگسیت کا اعلان ہے اور بتاتا ہے کہ وہ باپ اور بیٹے کے رشتے کے لطیف تقاضوں سے کتنے بے خبرہیں اورکس خوفناک خبطِ عظمت کے اسیر ہو چکے ہیں۔
ابھی اس ارشاد مبارکہ کی تلخی ختم نہیں ہوئی تھی کہ صاحب نے سماعتوں میں نیا رس گھول دیا۔اب کے فرمایا: میں میرٹ کا اتنا قائل ہوں کہ جب میرے اپنے والد شوکت خانم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گے تو میں نے انہیں بھی ہسپتال کے عہدے سے الگ کر دیا۔
ایک تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ عمران خان اپنی ذات کے خول میں بند ہیں۔ان کے نزدیک ساری کائنات ان کی ذات میں مجسم ہو چکی ہے۔وہ اپنی شخصیت سے بلند ہو کر سوچ ہی نہیں سکتے۔اپنی ذات کے فضائل بیان کرتے ہوئے وہ اپنے باپ کے بارے میں ناگوار گفتگو کرنے سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا اس لیے پیدا کی گئی ہے کہ وہ عمران سے محبت کرے لیکن جواب میں وہ کسی سے محبت کرنے کے پابند نہیں،وہ اپنی ذات تک محدود ہیں اور انسانی رشتوں اور احساسات کی انہیں پرواہ نہیں ہے۔زندگی کی ساٹھ سے زیادہ بہاریں دیکھنے کے بعد وہ ایک شادی کرتے ہیں ،بہنوں کو مگر وہ اس میں مدعو کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرتے۔
انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اکلوتے بھائی کے شادی میں بہنیں شامل نہیں ہو رہیں تو جا کر انہیں منا ہی لیا جائے۔وہ رشتوں میں گندھے احساسات سے زیادہ اپنی ذات پر توجہ دیتے ہیں۔آپ ان کی پہلی شادی کو ذرا یاد کیجیے۔اکلوتا بیٹا شادی کر رہا ہے اور باپ ساتھ موجود ہی نہیں۔کیوں؟ کیا اس لیے کہ وہ ذات کے خول میں بند ایک ہیرو ہے جسے کسی تعلق،کسی دوسرے وجود اور کسی رشتے کی پرواہ نہیں۔آدمی حیرت کے ساتھ سوچتا ہے کیا مرحوم اکرام اﷲ خان نیازی صاحب کو برطانیہ نہیں بلایا جا سکتا تھا؟جمائمہ بھابھی نے اپنا معاشرہ، دوست، احباب ، خاندان سب کچھ عمران کی محبت میں چھوڑا اور پاکستان آ گئیں، زندگی کے ایک موڑ پر خان صاحب نے انہیں بھی چھوڑ دیا۔آخری تجزیے میں انسانی احساسات کی قدر نہیں اپنی ذات سے منسلک ترجیحات ہی ان کا انتخاب ٹھہرتی ہیں۔پھر دوسری شادی ہوتی ہے، اور نکاح دولہن کے گھر میں نہیں بلکہ دولہا کے گھر میں پڑھایا جاتا ہے۔
نرگسیت غالبا گوارا نہیں کرتی کہ چل کر دلہن کے گھر جایا جائے۔چنانچہ دلہن کو پہلے اپنے گھر بلایا جاتا ہے پھر نکاح کیا جاتا ہے۔خبطِ عظمت کی ایسی مثال معلوم انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
زمان پارک میں عمران خان کا ایک کتا ہوا کرتا تھا۔اس کا نام انہوں نے ٹائیگر رکھا ہوا تھا۔عمران کی موجود گی میں یہ مجھ پر حملہ آور ہوا تو عمران نے اسے ڈانٹا؛’’ ٹائیگر‘‘۔۔۔۔۔انہی دنوں شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈاکٹھا کرنے کے لیے رضاکار تیار کیے گئے تھے اور ان کا نام رکھا گیا:’’ عمرانز ٹائیگرز‘‘۔یعنی کتے کا نام بھی ٹائیگر اور رضاکاروں کا نام بھی ٹائیگر۔اور اب خان صاحب اپنے کارکنان کو بھی اسی نام سے عزت دے رہے ہیں۔ہو سکتا ہے یہ اسی نام کے اثرات ہوں کہ جب بھی کوئی آدمی خان صاحب پر تنقید کرتا ہے یہ کارکنان اسے ایسی ایسی غلیظ گالیوں سے نوازتے ہیں کہ الامان۔۔توبہ۔
عمران خان کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ اصول پسنداور بہت مستقل مزاج ہیں۔عمران کی سیاست اس بات کی نفی کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی اصولی سیاست نام کے کسی تکلف کے روادار نہیں۔ان کا موقف بھی کراچی کی لڑکیوں کے فیشن کی طرح بدلتا ہے۔جسٹس وجیہ الدین کو بے توقیر کر دیا جاتا ہے اور جہانگیر ترین آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں۔کیا اس لیے کہ جہانگیر ترین کے پاس دولت بہت زیادہ ہے اور وجیہ الدین کونسا ذاتی طیا رہ رکھتے ہیں یا کپتان کو بلٹ پروف گاڑی دے سکتے ہیں۔ایک طرف یہ خبط عظمت کہ باپ کو عہدے سے الگ کر دیا ۔دوسری طرف یہ دست سوال کہ جہانگیر ترین کے خلاف اپنے ٹریبیونل کا فیصلہ آیا تو ترین کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے جسٹس وجیہ الدین کی گوشمالی کر دی۔
جاوید ہاشمی منتخب صدر تھے مگر اختلاف کی پاداش میں توہین کر کے کنٹینر سے نکال دیا گیا اور جہانگیر ترین غیر منتخب ہونے کے باوجود ٹریبیونل کے فیصلے کے باوجود آج بھی محترم ہیں۔جو شخص بقلم خود اتنا خوددار ہے کہ باپ سے بھی پیسے نہیں مانگتا تھا وہ جہانگیر ترین کے جہاز میں جھولے لیتا ہے اور اسے زبانِ خلق اور اپنے ٹریبیونل کی کوئی پرواہ نہیں۔ٹریبیونل نے ایک شخص کے خلاف فیصلہ دیا ، عمران خان اس میں آخری اتھارٹی ہیں ،انہوں نے کبھی اپنے ضمیر سے پوچھا کہ ایک فریق کا طیارہ استعمال کر کے اس کے بارے میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔
ابھی لاہور سے علیم خان کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ساتھ ہی خان صاحب کا ٹویٹ آیا کہ علیم خان کے بارے میں کرپشن کی باتیں غلط ہیں ، ہمارے کالم نگار نے پوری تحقیق کر لی ہے۔اس لیے اس کو ووٹ دو اس کی پارٹی کے لیے بڑی خدمات ہیں۔بندہ پوچھے : کون سی خدمات ہیں؟ سوائے اس کے کہ ان کی تجوری کا سائز بہت بڑا ہے۔شوکت خانم پراجیکٹ نے لگتا ہے عمران خان کے ’’ جھاکے‘‘ کھول دیے ہیں اور اب وہ پارٹی میں بھی ایسی ہی خدمات کی قدر کرتے ہیں جیسی خدمات وہ ہسپتال کے لیے مانگتے ہیں۔پارٹی اب اس مصرعے کی عملی شکل بنتی جا رہی ہے ’’ مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘‘ ۔۔۔۔۔
جہاں جہاں عمران کو آزما یا نہیں گیا وہ ایک مسیحا معلوم ہوتے ہیں، نقیبِ صبحِ صداقت۔
لیکن جہاں جہاں وہ آزمائے جا چکے ،اوسط درجے کے رہنما ثابت ہوئے، مروجہ سیاست کی غلاظتوں میں لتھڑے،انہی جیسے،پہلوں کی مانند۔
من کا برہما کبھی بے چین ہو کر پوچھتا ہے:عمران خان اور روائتی اہل سیاست میں کیا فرق بچا ہے؟تو جواب بن نہیں پاتا۔تحریک انصاف کے پرانے وابستگان کبھی دکھ کے ساتھ کہتے ہیں : عمران تبدیل ہو گیا، تو عرض کرتا ہوں: تبدیل نہیں جناب وہ بے نقاب ہوئے۔گذشتہ ایک سال میں انتہائی بری طرح بے نقاب ہوئے۔لمحہ لمحہ انہوں نے اپنے آدرش برباد کیے،برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ چھوڑے۔اب ان میں اور شیخ رشید میں کیا فرق بچا ہے؟
عمران خان کی شخصیت کے تضادات اور نر گسیت اس جماعت کو لے ڈوبیں گے۔
تحریک انصاف میں ٹائیگرز تو بہت ہیں، کوئی مردِ کار بھی ہے؟