اس کے کندھے پر کلاشنکوف آپ نے رکھی تھی ۔

mujahid

شفیق منصور

. . . . . . . . . . 
اس کا نام عبدالقدوس تھا۔ وہ اُنیس سال کا تھا جب اس نے مدرسہ چھوڑا تھا۔اُس کے گھر والے اُسے ایک اچھا عالم دیکھنا چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہوسکا۔اُستاد حبیب اللہ صاحب کہا کرتے تھے عالم بننا ہرکسی کے نصیب میں نہیں ہوتا ۔خدا جس پر مہربان ہوتا ہے وہی اس منصب کا حقدار ٹھہرتا ہے۔خدا عبدالقدوس پر مہربان نہ ہوا اس لئے وہ آدھے رستے سے واپس موڑ دیا گیا۔

مدرسہ سے گھر لوٹنے کی بجائے اُس نے ایک جہادی تنظیم کے دفتر کا رُخ کیا۔اُسے شہادت کی خواہش تھی۔ کیونکہ اسکے پاس زندہ رہنے کے لئے کوئی وجہ نہیں تھی۔ عبدالقدوس مجھے آٹھ سال بعد دوبارہ ملا۔پاکستان کی ایک معروف جہادی تنظیم کے دفتر میں۔اُس کے بال شانوں پر پڑ رہے تھے۔

عبدالقدوس جب مدرسہ آیاتھا تب اُسکی مونچھیں ظاہر نہیں ہوئی تھیں ۔ وہ دیوار کے سہارے چپ چاپ سر جھکائے بیٹھارہتا تھا۔محویت کا یہ عالم ہوتا تھاکہ لڑکے آہستہ سے قریب جاکراسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے تو وہ چونک جایا کرتا تھا۔پھٹے ہوئے بے جان ہونٹوں سے مسکرنے کی کوشش کرتا تو خون رِسنے لگتا تھا۔

ایک لڑکا رات کو ہمیشہ اسے تیل پیش کرتا کہ ہونٹوں پر مَل کرسوجا مگر وہ یہ کہہ کر انکار کردیتا کہ میرے پاس موجود ہے۔ آج آٹھ سال بعد وہ بالکل بدل گیا تھا۔وہ خوفزدہ نہیں تھا نہ اُسکے ہونٹوں سے خون رِستا تھا۔البتہ اسکے ہونٹ سُرخ ضرور تھے کیونکہ وہ اب بھوکا نہیں رہا تھا۔ تعارف کے بعد اس نے مجھے گلے لگا لیا اور اِس زور سے بھینچا کہ میری سانس ٹوٹنے کو آگئی ۔اُس نے دائیں کندھے پر کلاشنکوف لٹکائی ہوئی تھی۔میں عجیب حیرت سے دوچار تھا۔

میرے دماغ میں آٹھ سال پہلے کا عبدالقدوس تھا۔مایوس اور خاموش۔جس کندھے پر ہاتھ پڑنے سے وہ چونک جایا کرتا تھا اُس پر اس نے کلاشنکوف لٹکا لی تھی۔وہ مجھے ایک ہال میں لے گیا۔میں بیٹھ گیا اور وہ خود چائے لینے چلا گیا۔کلاشنکوف اس نے وہیں چھوڑ دی۔میں نے اسے اُٹھا کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔میں نے زندگی میں پہلی بار کلاشنکوف کو چھوا تھا۔میں نے سوچا میں اِسے اگر اپنے کندھے پر لٹکا لوں تو لوگ مجھ سے خوف کھائیں گے ۔انگلی کی ایک جنبش سے میں اپنے دشمن کا سینہ چیر سکتا ہوں جس میں وہ میرے لئے بغض رکھتا ہے۔

دنیا میں آنے کے بعد انسان نے سب سے پہلے جنگ کا فن سیکھا ۔اس نے معاشرتی آداب ،تعلیم و تربیت او ر گھر بنانا بعد میں سیکھالیکن اپنے بھائی کو مارنا سب سے پہلے سیکھا۔جرم انسان کے لئے کبھی شرمندگی کا باعث نہیں رہا۔قابیل کو ندامت قتل کرنے پر نہیں بلکہ لاش نہ چھپا سکنے پر ہوئی تھی۔ہم سب قابیل ہیں ۔ہمیں احساسِ جرم نہیں ستاتا بلکہ جرم کا ظاہر ہوجانا تکلیف دیتا ہے۔یہ بھی شاید بہت پہلے تھا اب تو ہم سرِعام جان لیتے ہیں۔

تھوڑی دیر میں عبدالقدوس ہال میں داخل ہوا ۔اسکے ہاتھ میں دو پیالے تھے ۔ایک اسنے میرے آگے رکھ دیا۔میں نے کلاشنکوف ایک طرف رکھدی۔ چلانا چاہوگے؟ اُس نے بے پرواہی سے کہا۔ میں نے کہا مجھے اِس سے نفرت ہے۔ اُس نے چائے کی چسکی لی اور کہا کیونکہ تم بزدل ہو۔مجھے یہ جملہ اچھا نہیں لگا ۔ میں نے ماتھے پر بَل ڈال کر کہا بہادری کسی کی جان لینا نہیں ہوتی۔اُس نے کلاشنکوف اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لی اورقرآن کی آیت پڑھنے لگا جس میں کفار کو مارنے کا ذکر ہے۔

پھر اس نے فورا سوال داغا ،کیاتم جہاد کے منکر ہو؟ میں نے بحث سے گریز کرنے کے لئے مسکرا کرکہا ،تم اب صحت مند ہوگئے ہو۔اُس نے میری بات اْن سنی کردی اور گول تکیے کا سہارا لیتے ہوئے بولا ،تم اِس جماعت میں کیوں نہیں شامل ہوجاتے ۔اللہ کی راہ میں لڑو،جان جائے گی تو جنت ملے گی۔میں نے پوچھا تم کہاں لڑ رہے ہو؟ کہنے لگا چار ماہ قبل افغانستان سے آیا ہوں ۔مختلف جگہوں پر پوسٹنگ ہوئی ۔ایکدو کو جہنم واصل کیاتھا۔یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ مجھے اُسکے پھٹے ہوئے ہونٹوں سے رِسنے والا خون یاد آگیا۔

میرے دل میں آیا اسے کہوں کہ وہ اپنا منہ کھولے مگر یہ میرے لئے مشکل تھا۔اُس نے چائے کی چسکی لی تو میں نے جھانک کر اسکے پیالے میں دیکھا ۔مجھے اطمینان ہوا کہ چائے کا رنگ نہیں بدلا تھا۔مگر میرا دماغ ابھی تک ہچکولے کھا رہاتھا۔ یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا ۔ جیسے اسنے انسان نہیں بلکہ دریا کے کنارے مچھلیوں کا شکار کیا تھا۔میں نے بے خیالی میں اسے کہہ دیا ، میں نے خون دو بار دیکھا ہے ، ایکدفعہ تمہار ے ہونٹوں پر جب تم مدرسہ میں پڑھتے تھے اور دوسری بار جب میں چھوٹا تھا اورڈاکٹر نے ٹیسٹ کے لئے ایک سرنج میں میرا خون لیا تھا ۔اس وقت میرا سر گھبراہٹ سے چکرانے لگا تھا۔ یہ سن کر اس نے چائے کا پیالا ایک طرف رکھ دیا اور کھل کرہنسنے لگا۔ تم جہاد نہیں کرسکتے۔بالکل نہیں۔وہ مسلسل ہنس رہاتھا۔

تم جہاد کیوں کرتے ہو؟ میں نے پوچھا۔ خلافتِ اسلامیہ کے قیام کے لئے۔ اس نے فورا جواب دیا۔ کیسی خلافت؟ جیسی ہمارے اسلاف نے قائم کی تھی ۔ہماری ماضی کی خلافتیں۔ اس نے سرد آہ بھر کر کہا۔ تم مجھے بزید کے بعد کوئی سے دس خلفاء کے نام بتا سکتے ہو؟ میں جانتا تھا اسے علم نہیں ہوگا۔ نام نہیں نظام اہم ہوتا ہے۔ اسکی آنکھوں میں جہالت کا غصہ واضح تھا۔ پھر بھی دوچار کے نام بتا دو۔میں نے اصرار کیا۔ عمر بن عبدالعزیز، ہارون الرشید، صلاح الدین ایوبی۔ وہ رک گیا۔اسے کسی اور کا نام نہیں آتا تھا۔

صلاح الدین ایوبی خلیفہ نہیں تھا۔ مجھے علم ہے مگر اس نے مسجد اقصی کو آزاد کریاتھا۔ اس نے ڈانٹ کرکہا۔ ٹھیک ہے۔ میں ایک لمحہ کیے لئے خاموش ہوگیا ۔

اچھا خلافت کے قیام کے بعد کیا تبدیلی آئے گی؟ قدرے خوف کے ساتھ پھر سوال کیا۔ دنیا پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ جائے گی۔کسی کو ہمارے حقوق سلب کرنے کی جرات نہیں ہوگی اور کوئی قرآن کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔اُن دنوں امریکی پادری ٹیری جونز کے ہاتھوں قرآن کی توہین پر ملک بھر میں احتجاج ہورہے تھے۔ میں نے اسکی بات کو کاٹ دیا اورایکبار پھر ڈرتے ہوئے کہا، کیا تم جانتے ہو ایک اموی خلیفہ نے قرآن مجید کی توہین کی تھی اور مجلس میں اسکے پرزے کردئیے تھے۔ وہ طیش میں آگیا۔جیسے قرآن کی توہین میں نے کی ہو۔ جیسے میں نے اسکے سامنے قرآن کے پرزے کردئیے ہوں۔ مجھے پہلے ہی شک تھا تم گمراہ ہوچکے ہو۔تمہارے خون میں اگر ایمان کا ایک ذرہ بھی ہوتا تو کبھی ایسی باتیں نہ کرتے ۔ مگر یہ سچ ہے ،تم اسے تسلیم کرو۔ میری آواز میں لرزہ تھا۔ خوف اور بے یقینی کا۔ وہ فورا کھڑا ہوگیا۔کلاشنکوف کندھے پر ڈال لی اور ہاتھ سے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔اُسکا مطلب تھا میں چپ چاپ یہاں سے نکل جاؤں۔ میں نے کھڑے ہوکر سلام کے لئے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا ۔مگر اس نے اپنا ہاتھ بدستور دروازے کی جانب اُٹھائے رکھا ۔اس کا مطلب تھا دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔ میں نے افسوسناک مسکراہٹ کے ساتھ اسکی طرف دیکھااور چل دیا۔

جب میں باہر قدم رکھ رہاتھا مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے اسنے مجھے دھکا دے کر دائرہ اسلام سے خارج کرنے کوشش کی ہو،اور وہ یقیناًیہی سمجھ رہا تھا۔ میں باہر آگیا مگر بہت ساری الجھنیں سمیٹ کر۔جب میں اندر گیا تھا میرے پاس چند سوالات تھے۔ عبدالقدوس کی ذات کے متعلق۔جہاد کے متعلق۔مجھے اگر انکے جوابات نہ بھی ملتے تب بھی کوئی بوجھ نہ تھا میرے دل پر ۔ مگر اب جب میں باہر آیا میرے سر پر سولات کا ایک ٹوکرا تھا جو میرے ذہن کو اذیت دے رہاتھا۔میرا دل گھٹن کا شکارتھا۔

عبدالقدوس نے میرے سینے میں کلاشنکوف سے بے رحمی کے ساتھ سوالات داغے تھے۔ انکے جوابات کون دے سکتا تھا۔ انکے جوابات عبدالقدوس بھی نہیں دے سکتا تھا۔ باہر دھند تھی ۔ میں نے چشمہ اتار کرقمیص کے دامن سے صاف کیااور واپس پہن لیا مگر دھندلاہٹ باقی تھی۔ یہ دھندلاہٹ میرے ملک کے مستقبل کی تھی۔

تصادم،جنگ،بھوک،طیش،گریبان، زندہ باد،مردہ باد۔جہالت کا جہالت سے مقابلہ۔لاتعداد گروہ ہیں۔ ہر گروہ نے ایک خط کھینچ رکھا ہے جسے پار کرنا وطن دشمنی ہے ہے یامذہب دشمنی۔جسکا بچہ بھوکا ہے وہ بھی اس سرزمین پر تھوکتا ہے اور جو سَیر ہوئے وہ بھی اس دھرتی پر لعنت بھیجتے ہیں۔

اقتدار کی جنگ۔ صرف اقتدار کی جنگ۔یہ ملک اقتدار کی چھینا جھپٹی کی عبرت گاہ بن چکا ہے۔غلام اقتدار چاہتے ہیں۔ ہوس کے غلام۔ دولت کے غلام۔پراگندہ خوابوں کے غلام۔سب کو راج کرنا ہے۔سوچ لیا گیا کہ انسان یا حاکم ہوتا ہے یا محکوم۔تفریق کردی گئی مزاجوں میں۔یا وہ اچھوت ہیں یا برتر۔ سب انتہا پسند ہیں۔ ہر ایک کے ہاتھ میں ایک لاٹھی ہے جس سے وہ دوسروں کو ہانکتا ہے اور خوفزدہ کرتا ہے۔

کسی لاٹھی پر مذہب لکھا ہے تو کسی پر لادینیت ۔کسی کے پاس جہالت کا ڈنڈا ہے تو کسی کے دل میں بے وجہ کی نفرت۔ اِس ملک کے جہاں لاتعداد مسائل ہیں وہیں انکے حل کے بے شمار نظرئیے بھی سامنے آئے۔

ان نظریات میں سے ایک نفاذِ شریعت کا نظریہ ہے ۔ اس ملک کے چھوٹے بڑے اور ہر نوعیت کے مسائل کا حل یہ ہے کہ اسلامی نظام نافذ کردیاجائے۔ یہ فکر بذاتہ غیرمتنازعہ ہے۔کوئی کلمہ گو اسکی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ تصور اور تھیوری کی حد تک تو یہ حل نہ صرف پاکستان بلکہ تمام اسلامی دنیا کے عوام کے لئے قابل ستائش ہے۔لیکن اگلا سوال کہ شریعت کا نفاذ کس طرح ممکن ہے اور اس کا دستوری و عملی ڈھانچہ کیا ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسکا تسلی بخش جواب آج تک پیش نہیں کیاجاسکا۔بھوک اور معاشرتی ناہمواریوں سے تنگ آکر اقامتِ دین کا نعرہ لگانا آسان ہے مگر اسے عملی جامہ پہنانا بہت زیادہ علم اور لامحدود صبر مانگتا ہے۔ ہمارے ہاں اسلامی نظام کے لئے بطورِنمونہ جس شکل کو منتخب کیا گیا وہ خلافتِ راشدہ یا خلافت علی منہاج النبوۃ ہے۔اور اس کے نفاذ کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ جہاد ہے۔یہی بنیادی غلطی تھی جسکی وجہ سے آج تک کسی ملک میں شریعت کا نفاذ ممکن نہیں ہوسکا۔

خلافت راشدہ اسلامی نظامِ حکم کی ایک ایسی مثال ہے جسکا انکار ممکن نہیں۔یہ صرف نبوت کا اعجاز اور خلفاء اربعہ کا خاصہ تھا۔اسکی نظیر ہمیں پوری اسلامی تاریخ میں دوبارہ نہیں ملتی۔عصرحاضر میں جہاں اسلامی ممالک میں بنیادی اخلاقی اقدار کا بھی فقدان ہو وہاں طاقت کے زور پر خلافت کا جھنڈا تو لہرایا جاسکتا ہے لیکن امن قائم نہیں کیاجاسکتا۔یہ بجا ہے کہ خلافت راشدہ کا نعرہ ہمارے ایمانی جذبات کو بے حد تسکین دیتا ہے اور یہ نعرہ جب بھی اور جہاں بھی لگایا جائے گااس پر لبیک کہنے والے کبھی کم نہ ہونگے مگر انہیں نتیجہ میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

حسن ترابی نے سوڈان کی حکومت ہتھیانے کے بعد کہاتھا میں ابوبکرؓ جیسی خلافت قائم کرنے جارہا ہوں۔ لوگوں نے اسے ہیرو بنادیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ تیس سال بعد سوڈان دولخت ہوگیا۔ اختلاف نظام کی سچائی میں نہیں ہے۔اختلاف عصر حاضر کے تقاضوں کو نہ سمھنے کے حوالے سے ہے۔

امیرمعاویہؓ نے خلیفہ بننے کے بعد جب مدینہ آکر خطبہ دیا تو فرمایا تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ میں ابوبکر و عمر کے راستے پر چل سکوں گا تو یہ مشکل امر ہے۔امیر معاویہ جانتے تھے کہ یہ وقت ابوبکر وعمر کے طرزِحکومت کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔صحابہ نے سنا تو وہ بھی خاموش رہے۔کسی نے نہیں کہا اے خلیفہ آپنے ناجائز بات کہہ دی۔اسلام اپنے پیروکاروں سے صرف اور صرف مقدور بھر کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔ریاست کا امن اور استحکام اسلام کا اولین مطالبہ ہے۔ دوسری غلطی یہ تھی کہ ہم نے شریعت کے نفاذ کے لئے جو راستہ منتخب کیا وہ جہاد کا راستہ تھا۔اسلام نے جہاد کو اپنے مقام پر جو اہمیت دی ہے اسمیں کوئی کلام نہیں۔مگر اسلامی ملک میں شرعی نظام کے نفاذ کے لئے جہاد کو وسیلہ بناناکم علمی اور احساسِ ناکامی کا نتیجہ تھا۔

مجاہد کی ذمہ داری شریعت کا نفاذ نہیں ہوتا یہ کام علماء ،فقہاء اور مجتہدین کا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پچھلے کئی عشروں میں مختلف ممالک میں مذہبی طبقے کو اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع میسر آئے مگر وہ اسلامی نظام کی غیرمتنازعہ اور متفقہ شکل وضع کرنے میں ناکام رہے۔لیکن اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے اقامت دین کا نعرہ لگانا بھی نہیں چھوڑا۔متبادل کے طور پر کبھی دائیں بازو کی گود میں بیٹھے اور کبھی بائیں بازو کی جماعتوں کو اسلامیانے میں لگے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ظواہری جیسے نوجوان مذہبی فاشسٹ میدان میں آگئے۔

انہوں نے شریعت کے نفاذ کی باگ ڈور سنبھال لی۔وہ مذہب کی خود تشریح کرتے ہیں اور طاقت کے زور پر اسے نافذ کرتے ہیں۔وہ اب علماء و فقہاء کی طرف رجوع کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ان جماعتوں کاسب سے زیادہ نقصان خود اسلامی ممالک کو ہوا ہے۔اس نقصان کے ذمہ دار صرف اور صرف علماء و فقہاء ہیں جو آج ان مسلح تنظیموں سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں مگر اس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ تشدد کا بیج بونے والے اور اسکے لئے راستہ ہموار کرنے والے وہ خود ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے