زنجیر عدل کب ہلتی ہے؟

سجاد اظہر

 سجاد اظہر

آئی بی سی اردو ، اسلام آباد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
امریکہ سے واپس آیا تو میڈیا ٹاﺅن کو مسکن بنایا ۔ مقصد اپنے لوگوں میں رہنا تھا ۔ اپنائیت کیا چیز ہوتی ہے یہ کوئی اس وقت جانتا ہے جب اس کے ہمسائے میں کوئی پیٹرکوئی ڈیوڈ رہتا ہو ۔ جہاں صرف آتے جاتے کسی کو ”ہائے “ سے زیادہ نہ کچھ بولا جا سکتا ہے نہ کسی کے پاس وقت ہوتا ہے ۔اور جب آپ مسلمان ہوں اور پھر پاکستانی بھی ہوں تو کوئی بھی آپ کے ساتھ ”ہائے “ سے آگے بڑھنا نہیں چاہتا ۔میڈیا ٹاﺅن میں اپنائیت کی یہ کمی تو پوری ہو گئی مگر جو سب سے بڑا مسئلہ ہمیں درپیش ہوا وہ ماحول کا تھا ۔
 
جب بھی ہوا چلتی اور اگر اس کا رخ دریائے سواں والی سمت سے ہوتا تو بد بو کے بھبوکے اٹھتے ۔یہ بدبو بعض اوقات قریب کی ساری بستیوں کو لپیٹ میں لے لیتی ۔ بحریہ ٹاﺅن اس کا پہلا ہدف تھا اس کے بعد میڈیا ٹاﺅن ،پھر پی ڈبلیو ڈی ، پولیس فاﺅنڈیشن ،سواں گارڈن ، ہمک ، ڈی ایچ اے ،کورنگ ٹاﺅن اور اس کے ساتھ قریبی دیہی علاقے سب اس تعفن کے نشانے پر تھے ۔ دریائے سواں کے کنارے پر یہ ڈمپنگ ڈپو اس وقت بنایا گیا تھا جب یہ علاقہ غیر آباد تھا ۔مگر جڑواں شہروں کا پھلاﺅ جس تیزی سے ہوا اس میں دس سے پندرہ سالوں کے اندر یہاں ہر طرف آبادیاں ہی آبادیاں ہو گئیں ۔ مگر ڈمپنگ ڈپو نہ صرف برقرار رہا بلکہ شہر میں آبادی بڑھنے کی وجہ سے یہاں آنے والے کوڑے کرکٹ کی مقدار میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا ۔
 
بحریہ ٹاﺅن کا وہ علاقہ جو دریائے سواں کے ساتھ تھا اس میں تقریباً تمام گھر یا تو خالی ہو چکے تھے یا پھر برائے فروخت تھے کیونکہ اتنے تعفن میں کون رہ سکتا تھا !
 
ماحولیاتی آلودگی شہروں کو متاثر تو کر رہی ہے مگر ہمارے ہاں اس کا شعور ہی نہیں ہے کہ اگر آب و ہوا صاف نہیں ہو گی تو آپ کی صحت کس قدر متاثر ہو سکتی ہے ؟
 
چند سال پہلے میں امریکہ میں اردو صحافت کے سرخیل جناب خلیل الرحمٰن کے ساتھ نیورک کی بورو سٹیٹن آئی لینڈ سے گزر رہا تھا تو جو در اصل مین ہیٹن کے ساتھ ایک جزیرہ ہے جسے سمندر اور ویری زونا برج سے بروکلین اور مین ہیٹن سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ جب اس بورو کا نیویارک سے لنک نہیں تھا تو یہ علاقہ شہر کا ڈمپنگ ڈپو تھا ۔ دہائیوں پہلے یہاں ڈپمنگ بند کر دی گئی اور اس کے اوپر صاف مٹی ڈال کر جنگل اُگا دیا گیا ۔ اب یہ علاقہ بہت سرسبز و شاداب ہے مگر اس کے باوجود یہاں رئیل سٹیٹ کی قیمتیں بہت کم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر کینسر کی شرح پورے نیو یارک شہر میں سب سے زیادہ ہے ۔ یعنی جو کوڑا کرکٹ برسوں پہلے یہاں کی زمین کے نیچے دفن کیا گیا تھا اس کے اثرات اب تک بر آمد ہو رہے ہیں ۔ اس پس منظر میں ،میں نے یہ مسئلہ کئی لوگوں کے گوش گزار کیا اور کئی تجاویز دیں مگر کوئی بھی متفق نہیں تھا اوران کا کہنا تھا کہ اگر ملک ریاض جیسا با اثر انسان یہ مسئلہ حل نہیں کروا سکا تو اور کس کی دال گلے گی ۔
 
میری حیرانگی کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے اخبار میں یہ خبر دیکھی کہ 30ستمبر تک اس ڈمپنگ ڈپو کو کسی اور جگہ شفٹ کر دیا جائے گا ۔ تفصیل دیکھی تو معلوم ہوا کہ ہائی کورٹ نے یہ حکم اس درخواست پر دیا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس ڈمپنگ سٹیشن سے ہائی کورٹ کالونی کا زیر زمین پانی متاثر ہو رہا ہے ۔یعنی اُس وقت تک میزان ِ عدل حرکت میں نہیں آئی جب تک یہ مسئلہ اس کے لئے ذاتی مسئلہ نہیں بن گیا ۔ اور جب ایسا ہوا تو ڈی سی او کو عدالت نے طلب کیا اور حکم دیا کہ دنوں میں یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو سزا کے لئے تیار ہو جاﺅ ۔
 
اسی طرح گدھوں کا گوشت تو پاکستانی عرصے سے کھا رہے تھے مگر جب سے ایک باثر شخصیت کا فرزند ِ ارجمند گوشت اور چکن کے کاروبار میں آیا ہے انتظامیہ حرکت میں ہے اور اب ہر گلی محلے کے قصائی سے گدھے اور مرداروں کا گوشت بر آمد ہو رہا ہے ۔تاکہ لوگ گلی محلے کی بجائے اب صرف فروزن گوشت ہی خریدیں ۔
 
یعنی میرا ہر مسئلہ اس وقت حل ہوتا ہے جب یہ ان لوگوں کا مسئلہ بنتا ہے جن کے پاس ریاست کی طاقت ہے ۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ اگر پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے تو پھر اشرافیہ کو بھی ایک عام بندہ بنا دو سب مسئلے ٹھیک ہو جائیں گے ۔ جس سکول میں عام آدمی کے بچے پڑھتے ہیں اسی سکول میں اشرافیہ کے بچے پڑھیں جس ہسپتال میں عام آدمی جاتا ہے اسی ہسپتال سے اشرافیہ بھی اپنا علاج کرائے اور جس بس میں بھیڑ بکریوں کی طرح عام آدمی سفر کرتا ہے اسی بس میں اشرافیہ بھی سفر کرے ، جس پانی کے نلکے سے عام آدمی پانی پیتا ہے اسی سے اشرافیہ کو بھی پلایا جائے تو مسائل حل ہو جائیں گے ۔ جب تک پاکستان میں دو پاکستان ہیں کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ بلکہ دو سے چار پاکستان اور بن جائیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے