اپنے اعزاز میں دیئے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ کمزور نظام کے نتیجے میں احتساب کی روایت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے جب کہ بعض وکلاء کے منفی کردار کا منہ بولتا ثبوت روز افزوں ہڑتالوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدل کسی منصب، پیسے اورنوکری کا نام نہیں بلکہ یہ ایک خدائی صفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے عدل اور انصاف کے ایوانوں میں دھونس، دباؤ اور اثرورسوخ والوں کی ناراضگی جیسے خوف کے کئی روپ دیکھے ہیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بہت سے مقدمات 3، 3 نسلوں تک چلے تھے، ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک کیس دائر ہونے سے فیصلہ ہونے تک اوسطاً 25 سال لگ جاتے ہیں، بدقسمتی سے اعتراف کرنے پرمجبور ہوں کہ سائلین کو فوری اورسستا انصاف نہیں مل رہا، ایسا نظام جو فوری اور سستا انصاف مہیا نہ کرسکے اسکو بدلنا حکومت، ججوں سمیت ہر شخص کی ذمہ دار ی ہے۔
دوسری جانب نامزد چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، بطور جج چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنی سوچ و فکر اور تجربے کو قانون کی حکمرانی کی ترویج کے لئے استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ کو ایک عظیم قانون دان اور قانون و انصاف کے محافظ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
جسٹس ظہیر انور ظہیر جمالی نے کہا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے فیصلوں سے جمہوری روایات اور انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق شعور اجاگر کیا، فیصلہ متفقہ ہو یا اختلافی جج اپنا نکتہ نظر بتانے سے نہیں ہچکچاتا اور چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے فیصلوں سے ثابت کیا کہ انہوں نے تمام دباؤ سے بالاتر ہو کر اپنا نکتہ نظر بیان کیا۔