اور یہ دس روپے آپ کی شراب کیلئے

Manto-Movie-810x549
کوکب جہاں
کوکب جہاں
آئی بی سی اردو ، کراچی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں سفید چاک سے لکھتا ہوں تاکہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور نمایاں ہوجائے۔۔۔ یہ الفاظ برصغیر کے مشہور کہانی نویس سعادت حسن منٹو کی زندگی کا خلاصہ ہیں۔
منٹو کی اس ہی زندگی کو پردہ سیمیں پر لانے کے لئے ہدایتکار سرمد سلطان کھوسٹ نے فلم منٹو بنائی ہے جو منٹو کی موت کے ساٹھ سال بعد گیارہ ستمبر کو پاکستان کے سینماؤں میں لگادی گئی۔
Manto movie
فلم منٹو کی زندگی کے ان آخری چھہ سالوں کی کہانی ہے جو انہوں نے قیام پاکستان کے بعد لاہور میں گزارے۔ بر صغیر کی تقسیم نے منٹو کی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے اور اس وقت کے پر سوز واقعات کی کہانیاں لکھتے لکھتے ان کے قلم میں ترشی اور کرواہٹ پیدا ہوئی اور انہوں نے ٹھنڈا گوشت، ٹوبہ ٹیک سنگھ، اوپر نیچے درمیان، لائسنس، اور کھول دو جیسی کہانیاں لکھیں جو اپنی بے باکی کی وجہ سے بعد میں متنازعہ کہلائیں اور جس کے لئے ان کو کئی بار عدالتوں کے چکر بھی لگانا پڑے۔
بمبئی میں ایک کامیاب فلم رائٹر کا کیرئر چھوڑ کر پاکستان آنے والے سعادت حسن منٹو کو جب اپنی کہانیوں کا معاوضہ لینے کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھانا
بڑیں تو وہ غم غلط کرنے کے لئے شراب کی لت کا شکار ہوگئے۔
Main-Manto-Team-with-Saadat-Hassan-Manto-Exclusive-Pictures-1-329x500
فلم کے رائٹر شاہد ندیم ہیں۔پچاس کی دہائی کے لاہور مٰیں فلمائی گئی فلم کا سکرین پلے منٹو کی کہانیوں سے ہی ماخوز ہے۔
فلم میں منٹو کا کردار بھی سرمد کھوسٹ نے ادا کیا ہے اور بہت پر اثر انداز میں کیا ہے۔ انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ منٹو جیسے تھے ان کو ویسا ہی پیش کیا جائے۔ ہر قدم پر شوہر کے ساتھ کھڑی رہنے والی منٹو کی بیوی صفیہ کا کرادر ثانیہ سعید نے بہت خوبی سے نبھایا ہے اور ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ ایک بڑی ادکارہ ہیں۔
فلم میں ملکہ ترنم نورجہاں اور منٹو کی دوستی کو بھی ایک خاص رنگ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ نورجہاں کے کردار میں صبا قمر نے گو کہ اچھی اداکاری کی، لیکن میڈم کے پورے رنگ ڈھنگ کو اپنانےمیں ناکام نظر آئیں۔
اس کے علاوہ ارجمند رحیم ، یاسرہ رضوی، نمرہ بچہ اور عرفان کھوسٹ نے بھی اپنے کراروں سے انصاف کیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ تمام اداکاروں نے صرف سکرپٹ ہی نہیں بلکہ منٹو کی زندگی اور کہانیوں کو پڑھ کر اداکاری کی ہے۔
منٹو کے ذیادہ تر کردار منٹو کی زندگی میں آنے والے لوگ تھے جنہیں وہ اپنے کہانیوں میں ڈھالتے۔ فلم میں ان کردارو کو کہیں ان کے تخیل میں دکھایا گیا ہے، کہیں وہ ان کی کہانیاں پڑھ کر سنارہے ہیں اور کہیں وہ ان سے خود مل رہے ہیں۔
فلم کا وہ سین قابل ذکر ہے جب منٹو پچیس روپے کی اجرت میں سے بچی کی دوا لینے کے بجائے اپنے لئے شراب لے آتا ہے، اس وقت اس فرمانبردار بیوی کے چہرے پر سوالیہ نشان اور برہمی سے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ اب منٹو منٹو نہیں رہا۔
زندگی کے آخری دنوں میں منٹو کو اپنے ہی کرداروں کے ساتھ الجھتا ہوا دکھایا گیا ہے، جہاں وہ کہیں ان سے بھاگتے ہیں اور کہیں ان ہی میں پناہ تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
فلم کی موسیقی جمال رحمان نے ترتیب دی ہے، جو میرا نائر کی فلم ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ کی موسیقی بھی ترتیب دے چکے ہیں۔ ایک آرٹ فلم ہونے کے ناطے موسیقی موقع کی مناسبت سے شامل کی گئی ہے ۔ مرزا غالب کی غزل ‘ آہ کو چاہئے۔۔۔ فلم کے بیک گرائونڈ میں متواتر چلتی رہی۔
فلم میں جس چیزکی کمی محسوس ہوئی وہ تھی منٹو کا مقدموں کی پیشی کے لئے عدالتوں میں جانا اور تاریخی جملے ادا کرنا.
فلم کے پروڈیوسر اے اینڈ بی پروڈکشن کے بابر جاوید ہیں جبکہ ڈسٹری بیوٹرز جیو فلمز ہیں
Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے