اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو جنرل اسمبلی کو کیا کہتا ؟

اظہاریہ : سجاد اظہر
سجاد اظہر

جناب صدر جنرل اسمبلی

جناب سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ

میں ایک ایسی قوم کے نمائندے کے طور پر آپ سے مخاطب ہوں جس نے دہشت گردی کے نام پر جاری عالمی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے ،70ہزار جانیں اور سو ارب ڈالر کا نقصان کوئی معمولی نقصان نہیں ہوتا ۔ایک غریب ملک کے لئے جہاں کی دو تہائی اکثریت کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا ۔جہاں کی مائیں کم خوراکی کی وجہ سے زچگی کے دوران مر جاتی ہیںاور جہاں کے بچے کوڑے کے ڈھیروں پر اپنا کھانا تلاش کرتے نظر آتے ہیں ۔جہاں کی بچیاں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے اپنی عزتیں بیچنے پر مجبور ہیں ۔جہاں کی بچیوں سے قلم اور کتاب کا حق بھی شدت پسند چھین رہے ہیں ۔بیروزگاری ،مہنگائی نے زندگی اجیرن بنا دی ہے ۔ دوائی ہے نہ انصاف ،عزتِ نفس محفوظ ہے نہ چادر اور چاردیواری ۔میرے وطن کے نوجوان ملک سے بھاگ رہے ہیں،کہیں پر عرب ان کا استحصال کر رہے ہیں تو کہیں پر یورپ جانے کی آرزو میں وہ بے کراں سمندروں میں غرق ہو جاتے ہیں یا یونان کی سرحدو ں پر ان کی لاشیں گدھ کھا جاتے ہیں۔ غریب ،غریب تر ہے اور امیر امیر تر ۔ہاں اس کا ذمہ دار میں بھی ہوں ۔

میں سب سے پہلے خود کو پیش کرتا ہوں ،ہم لوگ اور تیسری دنیا کے میرے جیسے تمام لیڈر غریبوں کو سہانے سپنے دکھا کر اقتدار حاصل کرتے ہیں مگر اس کے بعد اگر کسی کی حالت بدلتی ہے تو وہ حکمران ہوتے ہیں یا ان کے مصاحبین ، غریب کی حالت پہلے سے بھی بد تر ہوجاتی ہے ۔اس کا ذمہ دار میرے ساتھ وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام بھی ہے جس کی عمارت غریبوں اور محکوموں کے خون سے کھڑی ہے ۔یہ نظام تیسری دنیا میں ہم جیسوں کو پالتا ہے ،پھر انھیں اقتدار دلاتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ آﺅ مل کر لوٹ مار کریں ۔یہ ہمیں وہ منصوبے نہیں بنانے دیتا جس سے پائیدار ترقی ہو جس کے ثمرات عوام تک جائیں بلکہ یہ ہمیں صرف ان منصوبوں پر اکساتا ہے جس سے ان کی تجوریاں بھر جائیں ۔ ہمیں کمیشن ملے اور عوام کا خون نچوڑ لیا جائے ۔

میں اس کے لئے آپ کو پاکستان کے انرجی بحران کی مثال پیش کرتا ہوں ۔ہم گزشتہ دس سال سے بدترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں ۔بجلی نہ ہونے کہ وجہ سے ہمارا صنعتکار بھی ملک سے بھاگ کر دیگر ملکوں میں چلا گیا ہے ۔مگر میرے پیش رو حکمرانوں نے اس مسئلے کا حل نہیں نکالا ۔ہمارے پاس پانی کی وافر مقدار ہے ۔سارا سال بارشیں ہوتی ہیں ،بڑے بڑے گلیشئرز ہیں جس سے دریاﺅں میں طغیانی آتی ہے تو ہمارا ملک ڈوب جاتا ہے مگر ہم اس پانی کو بجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ اگر ہمارے بجلی گھر پانی سے چل پڑے تو پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مہنگے داموں تیل کون خریدے گا ۔پھر جنریٹر کیسے بکیں گے ۔پھر ہم ارد گرد کے ملکوں سے گیس کیسے خریدیں گے ۔پھر ہمارا سرمایہ کار ملک سے بھاگ کر دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کیسے کرے گا اور جائیدادیں کیوں خریدے گا ۔یہ سب مافیا مل کر ہماری سرکاری مشینری کو کرپٹ کرتا ہے اور وہ قوم کو ایک ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتا ہے جس کی کوئی منزل ہی نہیں ہوتی ۔

ہم گڈ گورنس میں اس لئے بھی ناکام ہو گئے کہ جو وقت ہماری ترقی کا تھا اس کو ہم اپنی جان بچانے پر صرف کر رہے ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ہماری معیشت اور قومی زندگی کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔اس جنگ نے ہمیں اپنے گھروں ، مسجدوں ، امام بارگاہوں ،گرجا گھروں اور مندروں میں ہی غیر محفوظ نہیں کیا بلکہ ہمیں نظریاتی ،لسانی اور مذہبی بنیادوں پر بھی تقسیم کر دیا ہے ۔

امریکہ اور مغرب تو اپنا سامان سمیٹ کر خطے کو الوداع کہہ رہا ہے مگر ایک ایسی جنگ کا شکار ہو چکے ہیں جو شاید ہماری اگلی نسلوں کو بھی لڑنا پڑے گی ۔کیونکہ یہ جنگ علاقے یا وسائل کی نہیں بلکہ بیانئے کی جنگ ہے جس کو لڑنے کے لئے ہمیں صرف مظبوط اعصابوں کی ہی نہیں بلکہ مظبوط ذہنوں کی بھی ضرورت ہے ۔ ہم یہ جنگ لڑ سکتے ہیں اور لڑتے رہیں گے مگر ہمیں کمزور کرنے والے اس ایوان کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں ۔

کشمیریوں کو اگر اقوام ِ متحدہ اپنی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے دہی دلوا دیتی تو آج وہ تنازعات نہ پید اہوتے جن کا سامنا پوری دنیا کو ہے ۔

انتہا پسند قوتوں کا بیانیہ سقوطِ اندلس سے اٹھا اور کشمیر اور فلسطین سے پروان چڑھ کر تن آور درخت بن گیا ۔اور اس کی کوکھ سے جن مسائل نے سر اٹھایا وہ اب اتنے شدید ہیں کہ ان سے محض طاقت سے نمٹنے کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے جس کا اعتراف اسی پلیٹ فارم پر امریکی صدر اوبامہ بھی کر چکے ہیں۔اب دنیا کو اپنے دیرینہ تنازعات حل کرنے ہوں گے ۔کیونکہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ تنازعہ اب صرف فریقین کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرتا ہے ۔

گیارہ ستمبر کے حملوں کو دیکھ لیں ، افغان جنگ کو دیکھ لیں یا پھر آج کے شام و عراق کو دیکھ لیں ۔کیا ان کا خمیازہ پوری دنیا نہیں بھگت رہی ؟ہم بھارت کے ساتھ اچھی ہمسائیگی چاہتے ہیں ۔ہماری ایک دوسرے کے ساتھ بہت سی قدریں مشترک ہیں مگر ہمارے راستے میں کوئی چیز روکاوٹ ہے تو وہ انتہا پسندانہ سوچ ہے ۔وہ سوچ ہے جو کشمیر میں اٹھنے والی آواز کا بدلہ ہمیں بلوچستان اور کراچی میں آگ ا ور خون کے طور پر دیتی ہے ۔ وہ قوتیں جنھیں اس تنازعہ کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے وہ اب اس تنازعہ کو علاقے میں چین اور بھارت کی پراکسی وار کے طور پر دیکھتی ہیں ۔

چین کے تعلقات اگر پاکستان سے اچھے ہیں تو وہ اس کے مقابلے پر بھارت کو شہ دے رہی ہیں ۔یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو علاقے میں نئے مسائل تو پید اکرے گا مگر کوئی مسئلہ حل نہیں کرے گا ۔ایک اور بات جو میں سب سے آخر میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آج کی دنیا کو خطرہ صرف انتہا پسندوں سے نہیں بلکہ اس لالچی سوچ سے بھی ہے جو ہر مسئلے کو اپنی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بنا لیتی ہے ۔جو غربت کو جنم دیتی ہے ،انتہا پسندی کو پروان چڑھاتی ہے اور شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر سمجھتی ہے کہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں تو پھل پھول رہی ہیں دنیا جائے جہنم میں ۔انہی لوگوں نے دنیا کو جہنم زار بنا دیا ہے ۔

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کی اقوامِ متحدہ بھی انہی قوتوں کی اسیر بن چکی ہے ۔اگر آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اقوامِ متحدہ کی کامیابی ہے کہ اس نے تیسری عالمی جنگ نہیں ہونی دہی تو یہ آپ کی خام خیالی ہے کیونکہ پہلے جنگیں سرحدوں پر فوجیں لڑتیں تھیں اب گلیوں میں عوام لڑتے ہیں ۔پہلے ملک لڑتے تھے اب مفادات اور نظریات لڑتے ہیں ۔پہلے لوگ ہلاک ہوتے تھے اب شہید ہوتے ہیں ۔اب ہم ایک ایسی جنگ کا شکار ہو چکے ہیں جو ہم سب کو ایک ایک کر کے کھا جائے گی ۔اگر آج اس جہنم میں ہم راکھ بن رہے ہیں تو کل آپ کی باری ہے ۔فرق صرف آ ج اور کل کا ہے !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے