پاکستانی فلم ہلا گلا کیوں توقعات پہ پورا نہ اتر سکی

55827d349bdb0

کوکب جہاں

آئی بی سی اردو، کراچی

ہدایتکار کامران اکبر ان کی فلم ہلا گلا ایک انتطار کے بعد اس عید الضحیٰ پر ریلیز کردی گئی۔

فلم کے پروڈیوسر حنیف محمد ہیں، جبکہ پروڈکشن کمپنی ایس ای فلمز ہے۔

فلم کے ڈسٹری بیوٹرز آئی ایم جی سی گلوبل انٹرٹینمنٹ اور جیو فلمز کے مطابق فلم اب تک ایک کروڑ روپے کابزنس کرچکی ہے۔

جبکہ ڈائریکٹر کامران اکبر خان جن کی یہ پہلی فلم ہے کا کہنا ہے کہ ان کو دوسری فلموں کے مقابلے میں بہت کم سکرینیں دی گئیں جس کی وجہ سے فلم کے بزنس کو نقصان پہنچا ہے۔

فلم کے آغاز میں دو سوتیلے بھائی گولڈن ڈان (جاوید شیخ ) اور اسماعیل تارا کو ایک دوسرے کا دشمن دکھایا گیا ہے۔

HALLA-GULLA-SIDRA-BATOOL

گولڈن ڈان کا بیٹا ساحل (عاصم محمود) اپنے باپ اور چچا کی ناجائز دولت کو پسند نہیں کرتا اس لیے ایک معمولی سے علاقے کے معمولی سے فلیٹ میں جا کر رہنا شروع کردیتا ہے جس کا کرایہ ادا نہ کرنے پر فلیٹ کا مالک اس کو نکال دیتاہے۔ ساحل کرائے کا گھر چھوڑنے کے بعد اپنے ماموں (حنین مانیار) کے پاس رہنا شروع کردیتاہے اور ایک لڑکی مسکراہٹ ( سدرہ بتول) کو پسند کرنے لگتا ہے۔ لیکن مسکراہٹ کے ماں باپ اس کی شادی کہیں اور کرنا چاہتے ہیں اور ساحل یہ رشتہ رکوانے کے لیے اپنے ماموں اور ممانی (مریم انصاری) کو اپنے ماں باپ بنا کر رشتہ دے بھیج دیتاہے۔ لڑکی کے بھائی اداس (منیب بٹ) اس رشتے سے راضی نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ساحل سے پہلے جھگڑا ہوچکا ہوتاہے۔ لیکن ساحل اداس کی دو شادیوں کے بارے میں جان کر اس کو بلیک میل کرتاہے اور کہتاہے کہ اگر اس نے شتے سے انکار کیا تو وہ اس کی دو شادیوں کا پول اسکے ماں باپ کے سامنے کھول دے گا۔ اداس مجبورا رشتہ منظور کرلیتاہے۔ اس ہی دوران اداس کو پتا چل جاتاہے کہ ساحل کے ماں باپ اس کے اصلی ماں باپ نہیں ہیں۔ اور پھر وہ ساحل کو بیلک میل کرتا ہے۔ جب دونوں میں سے کوئ کسی کو ہرا نہیں پاتا تو دونوں کی دوستی ہوجاتی ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

فلم کی ہدایتکاری کمزور ہے۔ گو کہ فلم کا پہلا ہاف بے ربط ہے لیکن دوسرے ہاف میں ہدایتکار کہانی پر قابو پاتے نطر آتے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح سٹوری بورڈ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اگر فلم کی کہانی میں اتنا الجھاؤ تھاتو سٹوری بورڈ پر کام کر کے اس کو دلچسپ بنایا جاسکتا تھااور فلم کی بے ربطی سے ناظرین کو بور کرنے کے بجائے ان کے لیے تجسس پیدا کیا جاسکتا تھا۔

فلم کے ڈائیلاگ بہت کمزور ہیں، بلکہ کہیں کہیں ان میں پھکڑ پن نطر آتا ہے ۔
کلر گریڈنگ اچھی ہے ۔ بلکہ اگر کیمرہ اور کلر گریڈنگ اچھی نہ ہوتی تو فلم مکمل فلاپ تھی۔

فلم کی موسیقی ساحرعلی بگا نے ترتیب دی ہے، جسے سن کر لاہوری فلمی میوزک کا احساس ہوتا ہے۔ ایک گانا ‘سروردے’ راحت فتح علی خان اور افشاں فواد کی آواز میں ہے جبکہ فل ٹائٹل سونگ ساحر علی بگا، کنال گنجاوالا، اور بینا خان نے گایا ہے۔ فلم کے ذیادہ تر گانوں پر ڈانس بھی اگرچہ لاہوری انداز کے ہیں لیکن باقی تمام پاکستانی فلموں کے آئٹم نمبرز سے جاندار ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ وہ تمام پروفیشنل ڈانسرز سے کروائے گئے ہیں۔

فلم میں غزالہ جاوید، عادل واڈیا، اشرف خان، سعدیہ غفار، منیب بٹ، زارا گل، جیسمین، حنا رضوی، مریم انصاری، حنین منیر اور بلال یوسف زئی نے بھی اہم کردا ادا کئے ہیں۔جاوید شیخ اور اسمٰعیل تارا کے علاوہ تمام اداکار پہلی مرتبہ فلم میں کام کررہے تھے جن کا تعلق ٹی وی یا اسٹیج سے تھا۔

کمزور ہدایکاری کی وجہ اداکار بھرپور کام نہیں کرپائے۔ غزالہ جاوید اور عادل واڈیا فلم کے کیمرے کے سامنے بہت نروس نظر آئے۔

فلم کی کہانی راحیلہ مشتاق شاہ کی ہے اور سکرین پلے کامران اکبر خان کا ہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے