اظہاریہ : سجاد اظہر
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نیو یارک کی سرد شاموں میں شعیب بن عزیز کا یہ شعر اکثر گنانے کو جی چاہتا
اب اداس پھرتے ہوسردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
یہ بھی ایسی ہی ایک شام تھی،تاریخ تھی 15اپریل 2010ءبرادرم حسن مجتبٰی اس روز بہت پر جوش تھے ،معاوذ اسد صدیقی ، محسن ظہیر، محمد فرخ ،سمیع ابراہیم اور استاد ِ محترم مسعود حیدر ، عظیم ایم میاں اور بہت سے بھارتی ،امریکی اور برطانوی صحافی اقوامِ متحدہ کے آڈیٹوریم میں پہلے سے موجود تھے ۔اس روز اقوامِ متحدہ کا بینظیر قتل کی تحقیقات کرنے والا خصوصی کمیشن اپنی رپورٹ جاری کر رہا تھا ۔کمیشن کے سربراہ اقوامِ متحدہ کے چلی میں مستقل مندوب ہیرالڈو منوذ تھے ان کے علاوہ اس کمیشن کے دو اراکین تھے جن میں انڈونیشیا کے سابق اٹارنی جنرل مرزوکی درشمان اور آئرش پولیس کے ڈپٹی کمشنرپیٹر فٹز جیرالڈ شامل تھے ۔
یہ فیکٹ فائنڈنگ کمیشن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان کی درخواست پر ترتیب دیا تھا جس کے تمام اخراجات حکومت پاکستان نے ادا کئے تھے ۔ جب کمیشن کے سربراہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرنا شروع کیا تو انھوں نے رپورٹ کی ایگزیکٹو سمری پڑھ کر سنا دی جس میں مرکزی نقطہ یہ اٹھایا گیا تھا کہ مشرف حکومت نے بینظیر بھٹو کی جان کو درپیش سنگین خطرات کے باوجود انھیں مطلوبہ سیکورٹی فراہم نہیں کی جس سے یار لوگوں نے یہ قیاس کیا کہ بینظیر کے قتل کی ذمہ دار ناقص سیکورٹی تھی ۔ ادھر پاکستان میں دھڑا دھڑ بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئی ۔ پوری رپورٹ ساٹھ صفحات پر محیط تھی رپورٹ پڑھنے کی کسی نے زحمت گوارا نہیں کی اور ایگزیکٹو سمری کو ہی بنیادبنا کر خبریں چلنا شروع ہو گئیں ۔ جب پریس کانفرنس ختم ہوئی تو کمیشن کے سربراہ نے ڈان کے نمائندے مسعود حیدر( جو اقوامِ متحدہ کی رپورٹر ز ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں )کا ہاتھ پکڑا اور انھیں اپنے کمرے میں لے گئے ۔ عظیم ایم میاں بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ ہم ان کے کمرے کے باہر ٹہلنے لگے ۔قریباً آدھ گھنٹے کے بعد مسعود حیدر باہر نکلے تو ہم نے کہا کہ وہ خبر بتائیں جو اس رپورٹ میں نہیں ہے ۔
مسعود حیدر نے کہا کہ ہرالڈ منوذ کہتے ہیں کہ یہ رپورٹ تشنہ ہے کیونکہ اس میں ہمیں اس کیس سے متعلق دو اہم ترین افراد تک رسائی نہیں ملی ان میں سے ایک امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کونڈا لیزا رائس ہیں جو مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان ڈیل کرانے میں شامل تھیں ۔اس ڈیل میں کیا طے ہوا تھا اور امریکہ کا اس میں کیا کردار تھا؟ ان سارے سوالوں کے جوابات وہی دے سکتی تھیں مگر کمیشن کے بار بار خطوط کا انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ انھوںنے کہا کہ کونڈا لیزا رائس میری کلاس فیلو ہیں اور میرے ان سے بہت اچھے مراسم ہیں مگر اس معاملے پر وہ دانستاً جان چھڑا رہی ہیں ۔ دوسرا فرد جن تک کمیشن کو رسائی نہیں دی گئی وہ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز تھے ۔ہم نے جی ایچ کیو سے متعدد بار رابطہ کیا فارن آفس کو بیچ میں ڈالا مگر ان تک رسائی نہیں ملی۔ یہ میجر جنرل ندیم اعجاز ہی تھے جنھوں نے قتل کے فوراً بعد کے معاملات سنبھالے ہوئے تھے اور وہ ہسپتال اور انتظامیہ کو براہ راست ہدایات دے رہے تھے ۔جائے وقوعہ کو بھی ان کے کہنے پر دھو دیا گیا ۔
میں نے یہ گفتگو سنی اور سب وے میں بیٹھ کر گھر آگیا ۔ میں نے رپورٹ پڑھنا شروع کی تو اس کے صفحہ 19سے 39تک کمیشن نے بین السطور بہت کچھ کہہ دیا تھا ۔ صفحہ 19پر لکھا ہوا تھا کہ بینظیر کے سیکورٹی ایڈوائزر رحمان ملک تھے جو کہ بینظیر بھٹو کی جانب سے سیکورٹی اداروں کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے اور ان کی ذاتی سیکوررٹی کی ذمہ داری بھی ان پر تھی مگر جب کمیشن نے ان سے سوالات کئے تو انھوں نے کہا کہ وہ بینظیر کے ذاتی نہیں بلکہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر تھے ۔
کمیشن نے صفحہ 21سے 40تک سی پی او راولپنڈی سعود عزیز کی کارگزاری کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ بینظیردوپہر دو بج کر پندرہ منٹ پر فیض آباد پہنچیں ان کے پہنچنے سے لے کر پانچ بج کر چودہ منٹ پر جب انھیں قتل کیا گیا کی سیکورٹی کے حوالے سے پولیس نے جو پلان بنایا ہوا تھا اس پر کہیں بھی عمل نہیں ہوا ۔یہ طے ہوا تھا کہ بینظیر جیسے ہی فیض آباد پہنچیں گی ان کی گاڑی کو چاروں اطراف سے ایلیٹ فورس کی گاڑیاں گھیرے میں لئے رکھیں گی ۔مگر ایسا نہیں ہوا جو فل اسکارٹ بینظیر کو دیا جانا تھا وہ بھی نہیں تھا ۔اے ایس پی اشفاق انور جو ایلیٹ فورس کے سپر وائزر تھے اور انسپکٹر عظمت علی ڈوگر کا کہنا ہے کہ وہ پلان کے مطابق بینظیر کی گاڑی کے پیچھے تھے مگر جو فوٹیج کمیشن کو ملی اس میں وہ کہیں نظر نہیں آرہے ۔
بینظیر جب تقریر ختم کر کے لیاقت باغ سے نکلیں تو پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کے مطابق انھیں لیاقت باغ کے گیٹ سے مری روڈ کی بجائے لیاقت روڈ کی طرف نکلنا تھا مگر جب وہ باہر نکلیں تو پولیس نے گاڑیا ں کھڑی کر کے دائیں جانب کا راستہ بلاک کر رکھا تھا ۔جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ بینظیر کو اسی راستے سے جانا تھا جس راستے سے وہ آئی تھیں۔ رپورٹ کے صفحہ 29 پر لکھا ہے کہ ڈاکٹر مصدق نے بینظیر کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لئے تین بار ایس پی سعود عزیز سے اجازت مانگی مگر ہر بار انکار کر دیا گیا ۔حالانکہ پاکستانی قانون کے مطابق پوسٹ مارٹم ضروری تھا اور اس کے لئے بینظیر کے کسی فیملی ممبر کی اجازت ضروری نہیں تھی ۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی راولپنڈی کے کمانڈر کرنل جہانگیر اختر شام ہی سے ہسپتال میں موجود تھے ۔ایک موقع پر آئی ایس آئی کے ڈپٹی میجر جنرل ندیم نصرت نے کرنل جہانگیر کے فون پر ڈاکٹر مصدق سے رابطہ کیا جب کمیشن نے کرنل جہانگیر سے اس فون کے بارے میں پوچھا تو پہلے وہ انکاری ہو گئے مگر بعد ازاں انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے سینئرز کو بینظیر کے مرنے کی اطلاع کنفرم کر کے دینا چاہتے تھے ۔
اسی طرح کمیشن نے جائے وقوعہ کو دھونے کو مجرمانہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سعود عزیز اتنے اہم واقعہ کے شواہد کو دھو کر ضائع کر دے ؟ جائے وقوعہ کو دھونے کی وجہ سے صرف 26شواہد مل سکے حالانکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو سینکڑوں شواہد مل سکتے تھے ۔ ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جائے وقوعہ دھونے کے احکامات آرمی ہاﺅس سے آئے تھے ۔اور یہ احکامات اس وقت کے ڈی جی ایم آئی میجر جنرل ندیم اعجاز نے دیئے تھے ۔
رپورٹ کے مطابق 28دسمبر کی جی ایچ کیو میں جنرل مشرف کی زیر صدارت ایک اعلی ٰ سطحی میٹنگ ہوئی جس میں تینوں ایجنسیوں ایم آئی ۔ آئی ایس آئی اور آئی بی کے ڈی جی شریک ہوئے ۔اس میٹنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی نے برگیڈئر جاوید اقبال چیمہ کو بلا کر پریس کانفرنس کرنے اور اس کا الزام بیت اللہ مسعود پر لگانے کے لئے ایک آڈیو ٹیپ دی ۔
جب اقوام ِ متحدہ کمیشن کی یہ رپورٹ جاری ہوئی تو حکومت نے اس کی روشنی میں تحقیقات کو آگے بڑھانے کی بجائے کچھ سرکاری افسران کو کام کرنے سے روک دیا اور کچھ کے نام ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیئے ۔ آگے کچھ نہیں ہوا ۔
پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال پورے کر گئی اور اس پر شادیانے بھی بجائے گئے مگر بی بی کے قاتل نہ پکڑے جا سکے ۔
ایک بار میں نے یہ سوال صمصام بخاری سے نیویارک میں پوچھ ہی لیا کہ آپ کی حکومت اپنی لیڈر کے قاتل تک نہ پکڑ سکی اور کیا کرے گی جس پر انھوں نے کہا کہ جی پی ایس کی لوکیشن جس جگہ کو ظاہر کرتی ہے اگر ہم وہ بتا دیں تو اس کے بعد نہ ہم ہوں گے نہ ہماری حکومت ۔
اس لئے جمہوریت کو ہی بہترین انتقام سمجھتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اب یہ کام نواز شریف حکومت کر رہی ہے ۔
مارک سیگل کے بیانات سے پھر مشرف کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے ۔نواز شریف پرویز مشرف کو آرٹیکل سکس میں تو پھنسوا نہیں سکے اب وہ اس کیس کا سہارا لے کر انھیں دباﺅ میں لانا چاہتے ہیں ۔ بینظیر قتل کے محرکات کیا تھے ؟ امریکہ کا اس میں کیا کردار تھا ؟ کونڈا لیز ارائس نے کمیشن سے کیوں تعاون نہیں کیا ؟ اس کا ایک جواب مارک سہگل نے دے دیا ہے کہ امریکہ جنرل مشرف کو مزید دس سال تک اقتدار میںرکھنا چاہتا تھا اور بینظیر کو کہا گیا تھا کہ وہ اقوامِ متحدہ میں کوئی عہدہ سنبھا ل لیں ۔ مگر بینظیر اس کے لئے تیار نہیں تھیں ۔گویا بینظیر کے قتل کے ڈانڈے اسلام آباد سے واشنگٹن تک جاتے تھے ۔بینظیر اپنے والد سے کوئی سبق حاصل نہیں کر سکیں !افسوس صد افسوس