بالی وڈ کی نئی کرائم ڈرامہ فلم ‘بازار’ میں گو کہ کئی ہالی وڈ فلموں کی جھلک نظر آتی ہے لیکن فلم کے مصنف نکھل ایڈوانی نے کہانی کو برصغیر کی اسٹاک مارکیٹ کے طورطریقوں اور بھارتی ناظر کے زوق کے مطابق ڈھالا ہے جس میں ممبئی کے بازار حصص میں ہونے والی چالاکیوں اور ریشہ دوانیوں کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ ہدایت کار گورو کے چاولہ نے فلم کے ہر کردار کو اہمیت کے ساتھ پیش کرکے کہانی کو مزید دلچسپ اور پر تجسس بنا دیا ہے۔
بازارایک نوجوان رضوان احمد (روہن ونود مہرہ) کے خودکشی کے منظر سے شروع ہوتی ہے اور پھر کیمرہ فلیش بیک میں چلا جاتا ہے جہاں الہ آباد کے ایک متوسط گھرانے میں ایک ایماندار سرکاری افسر کے گھر جوان ہونے والے رضوان کے خواب کچھ اور ہی ہیں جن کی تکمیل کے لیے باپ کی مرضی کے خلاف قسمت آزمائی کرنے ممبئی چلا آتا ہے۔ وہاں وہ اپنے آئیڈیل ممبئی اسٹاک ایکسچینج کے ان داتا شکن کٹھاری (سیف علی خان) کے دفتر کے سامنے ایک چھوٹا سے فلیٹ میں رہنے لگتا ہے اور ہر روز یہی خواہش کرتا ہے کہ ایک دن وہ بھی اس ہی دفترمیں کام کرے گا۔ اور آخر اس کی یہ خواہش پوری ہوتی ہے اور ایک تقریب میں شکن کٹھاری کو پہلی ملاقات میں میں متاثر کرنے کے بعد اس کی کمپنی میں ملازمت حاصل کرلیتا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں رضوان کا ممبئی میں ایک کامیاب اور پر تعیش زندگی گزارنے کا خواب پورا ہوجاتا ہے لیکن وہ شہر کی کاروبای عیاریوں سے بے خبر رہتا ہے اور جب اسے حقیقت کا پتا چلتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور حالات کا سامنا کرنے کے بجائے خود کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ فلم کا سلسلہ دوبارہ وہیں سے شروع ہوتا ہے اور پھر اگلے مرحلے میں کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔
بازار میں سیف علی خان ایک چالباز کاروباری شخصیت کے کرادر میں اپنی اداکاری صلاحیتوں کے عروج پرنظر آئے اور ونود مہرہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور اپنے کردارکے بدلتے ہوئے رنگوں میں جوبصورتی سے ڈھلتے رہے۔ رادھیکا ایپٹے جوکہ فلم میں رضوان کی دوست پریا کے کرادر میں ہیں اپنی ہر نئی فلم میں یہ ثابت کرتی جارہی کہ وہ ایک انتہائی باصلاحیت اداکارہ ہیں اورانہیں کسی بھی کردار کو شیشے میں اتارنا خوب آتا ہے۔ چترانگا سنگھ فلم میں گوکہ ایک مختصر کردارمیں ہیں لیکن اس مختصر مگر اہم رول کو بھی وہ بھرپور طریقے سے ادا کرگئی ہیں۔
بازار کا مرکزی خیال گرچہ 2013 میں آنے والی ہالی وڈ کی مشہور اور کامیاب فلم "دی وولف آف وال اسٹریٹ” سے ہی لیا گیا ہے لیکن کہانی کے بیان کا انداز اس سے زرا مختلف ہے۔ مثلا ‘دی وولف آف وال اسٹریٹ’ میں کہانی فلم کے مرکزی کردار جورڈن بیلفورٹ (لیونارڈو ڈی کیپریو) کے گرد ہی گھومتی ہے جس میں اس کی زندگی کے مختلف ادوار اور پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا تھا جبکہ بازار میں ایک سے زیادہ کرداروں کو اہمیت دیے بغیر کہانی مکمل نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ہالی وڈ فلم میں کسی سسپنس کے بغیر نیویارک کے سٹاک مارکیٹ کے طریقوں کو واضح انداز میں پیش کیا گیا تھا جبکہ بازار تجسس اور رازوں سے بھرپور ہے جو کہانی کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کھلتے چلے جاتے ہیں۔
ہندوستانی سینما تکنیکی لحاظ سے بین الاقوامی سطح پر پہنچ چکا ہے جس میں ان کی بہترین سینما ٹوگرافی، فریمنگ اورایڈیٹنگ فلم کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بازار بھی تکنیکی اعتبار سی ایک بہترین فلم ہے۔ لیکن فلم میں یا تو کچھ سوالوں کا تجسس برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے یا پھر فلم ساز ان کو واضح نہیں کرسکے۔ مثلا فلم میں یہ نہیں دکھایا گیا کہ شکن کٹھاری اور پریا کے درمیان تعلقات کس حد تک تھے یا پھر پریا اسٹاک مارکیٹ کے اندرکی خبریں کس طرح رضوان یا پھر شکن کو لا کر دیا کرتی تھی۔ لیکن بہرحال یہ وہ چھوٹی خامیاں ہیں جو کہانی کی بنت پر اثر انداز نہیں ہورہیں لیکن فلم دیکھنے کے دوران کئی بار ناظر کا دھیان تانے بانے جوڑتے فلم سے ہٹ جاتا ہے جس سے کہانی کی روانی متاثر ہوجاتی ہے۔ فلم میں بہت سی ایسی کاروباری اصلاحات ہیں جو کہ عام ناظر کو فوری طور پر سمجھ میں نہیں آتیں لیکن آگے چل کر ان اصلاحات کے معنی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بہر حال بازار مجموعی طور پر ایک اچھی فلم ہے اور اس کی کامیابی کی ضمانت یہ ہے کہ ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی یہ ہندوستان اور پاکستان کے سینماؤں میں لگی ہوئی ہے۔