بھارتی فلم انڈسٹری میں آج کل جہاں انتہائی بڑے بجٹ کی فلمیں بن رہی ہیں، جن میں سے کچھ کامیاب ہیں اور کچھ بالکل فلاپ ہوچکی ہیں وہیں کئی فلمیں ایسی بھی ہیں جو مختصر بجٹ اور کم معاوضہ لینے والے اداکاروں کے ساتھ بنائی گئیں اور کامیابی کے ریکارڈ توڑ گئیں۔ اس سال بڑے بجٹ اور سپر اسٹارز کے ساتھ بنائے جانے والی فلمیں عامر خان کی ‘تھگز آف ہندوستان’ اور جولائی میں ریلیز ہونے والی سلمان خان کی ‘ریس تھری’ باکس آفس پرناکام ہوگئیں جبکہ اس ہی سال اکتوبرمیں ریلیز ہونے والی فلم بدھائی ہو نہ ہی مہنگی لوکیشنز یا سیٹ پر فلمائی گئی اور نی ہی اس میں انڈسٹری کے مہنگے ترین اداکار شامل ہیں لیکن جاندار کہانی اور بھرپور اداکاری سے آپ کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ کون اداکاراور کون کردار۔ ‘بدھائی ہو’ اپنے بجٹ سے کئی گنا زیادہ بزنس کرچکی ہے اور چھہ ہفتے گزر جانے کے بعد بھی کامیابی کے ساتھ سینماؤں کی زینت بنی ہوئی ہے۔
گوکہ چھہ ہفتے گزرنے کے بعد کسی فلم کا تجزیہ کرنے کا کوئی خاص جوازنہیں بنتا لیکن بدھائی ہو نے فلم سازوں اور تجزیہ کاروں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر اس فلم میں ایسا کیا ہے جس نے فلم بینوں کو اپنی طرف کھینچا اور باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔
اس کی وجہ جو واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے وہ اس فلم کا اچھوتا یا نیا موضوع اور جاندار کہانی ہے۔ فلم میں بڑی عمر کے والدین کے یہاں بچے کی پیدائش کو موضوع بنایا گیا ہے جواس وقت برصغیر کے معاشروں میں معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ بدھائی ہومیں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب ایک جوان بیٹے کے والدین ایک بار پھر ماں اور باپ بننے والے ہوتے ہیں تو خاندان پر معاشرے کی جانب سے کس طرح کا ردعمل سامنے آتا ہے۔ بہرحال فلم اپنے اندر دلچسپی اور مزاح کے ساتھ ایک سنجیدہ مسئلے یعنی معاشرے کی پست ہوتی ہوئی سوچ کی بھی عکاسی کررہی ہے۔
فلم کی کہانی ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پچیس سالہ نوجوان نکل (ایوشمان کھرانہ) سے شروع ہوتی ہے جو ایک دفتر میں ملازم ہے اور اپنی ساتھی رینی (ثانیہ ملہوترا) کے ساتھ پسند کی شادی کرنے والا ہے۔ نکل کا باپ جیتیندر کوشک (گجراج راؤ) ریلوے میں ملازم ہے اورماں پریام وادا (نینا گپتا) ایک گھریلو خاتون ہے جبکہ اس کا چھوٹا بھائی گلر (شردل رانا) ہائی اسکول کا طالبعلم ہے۔ یہ خاندان اس وقت ایک بلا وجہ کی پریشانی کی شکار ہوجاتا ہے جب ان کو پتا چلتا ہے کہ پریا تیسری بار ماں بننے والی ہے۔ خاندان کے دونوں بیٹوں اور خاص طور پر جیتو کی ماں پر یہ خبر بم بن کر گرتی ہے جو پہلے ہی اپنی بہو پر ایک روایتی ساس کی طرح جملے کستی رہتی ہے۔ اس انکشاف کے بعد محلے دار، رشتے دار اور دوست سب ہی خاندان کو مذاق کی نشانہ بنانے لگتے ہیں اور یہاں تک کہ دیا جاتا کہ اس عمر میں میاں بیوی کو رومان لڑاتے ہوئے شرم نہیں آئی اور پھر اوپر سے بچے کی ہیدائش بھی۔ نتیجتہ ان کے لیے اپنی سماجی زندگی کو جاری رکھنا ایک مسئلہ بن جاتا ہے لیکن اس سب کے باوجود پریا یہ بچہ ضائع کروانے سے انکار کردیتی کیونکہ اس کے نزدیک یہ ایک گناہ ہے۔ ان ہی دشواریوں کے دوران نکل اور رینی کا تعلق بھی ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ رینی کی ماں بھی نکل کی زندگی کی اس حقیقت کو طنز کا نشانہ بناتی ہے۔ بہرحال کس طرح یہ خاندان ان تمام آزمائشوں سے نبرد آزما ہوتا ہے اور دوبارہ کس طرح اپنی زندگیوں میں واپس جاتا ہے فلم کے ڈھائی گھنٹے میں بہت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
بدھائی ہو میں ایوشمان کھرانہ اپنی روایتی حقیقت سے قریب اداکاری کرتے نظر آئے ہی جبکہ ابھرتی ہوئی اداکارہ ثانیہ ملہوترا نے بھی اپنا مختصر کردار اچھی طرح نبھایا ہے۔ سب سے جان دار کام یقینا پریا کے کردارمیں نینا گپتا نے کیا ہے اور اپنی اداکاری سے اور تاثرات سے مکمل طور پر اپنے کردار کے سانچے میں ڈھل گئی ہیں۔
آخر میں ایک بات کا زکر ضرری ہے کہ بدھائی ہو میں اٹھائے جانے والے موضوع کو قابل اعتراض فعل بنا کرپیش کرکے برصغیرکے معاشروں میں بڑھتی ہوئی دقیانوسیت کو بھی اجاگرکیا گیا ہے جس کا اثر ایک عورت اور مرد کے فطری تعلقات پر بھی پڑا ہے جو اتنا بڑھ گیا ہے کہ میاں بیوی کے قربت کے تعلقات کو بھی نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن زرا ساٹھ ستر دہائیوں قبل پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ اس زمانے میں ایک ہی گھر میں ماں اور بیٹی دونوں کا ایک ہی وقت میں حاملہ ہونا ایک عام بات تھی۔ یقینا اس کی وجہ کم عمری کی شادیاں تھیں لیکن آج بھی کہیں ایسا ہونا کوئی معیوب بات نہیں۔ اگر ہم اپنی نانا نانی اور دادا دادی کی نسل پر نظر ڈالیں تو انکے کئی بھانجیاں بھانجے اور بھتیجے بھتیجیاں ان کے ہم عمر نکلیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ بدھائی ہو میں ایک ایسے موضوع کو اٹھایا گیا ہے جو حقیتا اتنا سنگین نہیں جتنا اس کو ہماری سوچ نے بنادیا ہے