جرات نابینا تھے۔ایک روز بیٹھے فکرِ سخن کر رہے تھے کہ انشاء آ گئے۔ انہیں محو پایا تو پوچھا حضرت کس سوچ میں ہیں؟ جرات نے کہا : کچھ نہیں۔ بس ایک مصرع ہوا ہے۔ شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔ انشاء نے عرض کیا : کچھ ہمیں بھی پتا چلے۔ جرات نے کہا: نہیں۔ تم گرہ لگا کر مصرع مجھ سے چھین لو گے۔ آخر بڑے اصرار کے بعد جرات نے بتایا۔ مصرع تھا: اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی انشاء نے فوراً گرہ لگائی: اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی جرات لاٹھی اٹھا کر انشا کی طرف لپکے۔ دیر تک انشاء آگے اورجرات پیچھے پیچھے ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری حصہ ’’سنگھا’’ تھا۔ جب ان کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں۔اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا:آپ اس کا نام بارہ سنگھا رکھ دیجیے۔
ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا: آپ جس شخص کا ناول خرید رہے ہیں وہ یہی ذات شریف ہیں۔لیکن یہ چہرے سے جتنے بے وقوف معلوم ہوتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔شوکت تھانوی نے فوراً کہا: جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑا فرق ہے۔ یہ جتنے بے وقوف ہیں، چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔
عبدالحمید عدم کو کسی صاحب نے ایک بار جوش سے ملایا اور کہا:یہ عدم ہیں۔عدم کافی جسامت والے آدمی تھے۔جوش نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے: عدم یہ ہے تو وجود کیا ہو گا؟
جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا۔ لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں دیا۔ جواب میں جوش نے انہیں لکھا:جنابِ والا،میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا۔ لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔
کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔اکثر شعراء آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوش صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر دادو تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔گوپی ناتھ امن نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ جوش صاحب نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا: منافقت۔اور پھر داد دینے میں مصروف ہو گئے۔