زندگی کی بیس بہاروں میں سے بیشتر وقت ہم نے علمی حلقوں اور علمی لوگوں میں گذارا۔ ابتدائی وقت میں علماء سے ملاقات اور مختلف جماعتوں سے متعلق رہا۔ ایک بات جو ہر مذہبی جماعت اور اسکے ماننے والے اپنی فراخ پیشانیوں پہ چپکائے پھرتے ہیں وہ ایک فرمان ہے۔ جس میں اس جماعت کے لئے خلوص نیت، غلطی سے حفاظت اور اسلام کے علمبرداری کا پروانہ سنایا گیا ہے۔
ہمارے علمی حلقوں کی بدقسمتی کہ لیجیئے کہ ہم آج تک اختلاف اور مخالف کو احترام کی جگہ نہی دے سکے۔ ہمارے علمی حلقے کبھی بھی ان تمام لوازمات کے متحمل نہی ہوسکے جنکی موجودگی کسی بھی علمی معاشرے کی افزائش کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی علمی اور اخلاقی گرواٹ کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔
یہ بات اکثر علمی حلقوں میں کہی اور سنی جاتی ہے معصوم صرف انبیاء ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کسی بھی فرقے کی مسجد اور اسمیں لگے علمی حلقے کا چکر لگا لیجیئے۔ محسوس ہوگا کہ یہاں تو ہر مسجد اور ہر منبر پہ ایک نبی براجمان ہے۔ کبھی کسی سے اختلاف کی جسارت کرکے دیکھ لیں۔ لبوں پہ ابھرنے والی طنزیہ مسکراہٹیں اور الفاظ کی کاٹ سے ہی آپکو چانن ہو جائے گا۔
اختلاف، اختلاف ہمارے علمی حلقوں میں ناپید چیز ھے۔ اگر کہیں راہ گزرتے کبھی ملا بھی تو مسخ شدہ حالت میں۔ افسوس ہوا۔ استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ بیچارہ علمی لوگوں کے غیر علمی رویوں کی نظر ہوگیا۔ پتہ چلا حضرات نے اپنے علمی حلقوں میں خوب گھسیٹا اور فرقہ واریت کی ڈانگ سے خوب دھلائی کی- قابل رحم بات ھے۔
علمی اختلاف، اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ علم اور علمی مجالس کی سب سے خوبصورت چیز کیا ھے تو میں کہوں گا علمی اختلاف ھے۔ کبھی کبھی جب مجھے اختلاف کا خیال آتا ھے تو میں سوچتا ھوں کہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد میں یا اس وقت کے علماء میں جب اختلاف ہوتا ہوگا۔ تو بڑے مناظرے ہوۓ ہونگے۔ شائید ڈانگ سوٹا بھی ہوا ہو؟؟
جی نہی، ایسا کبھی نہی ہوا کیوں کہ ان کے مقصود تو علم تھا۔ ہمارے مقصود جیت ھے۔ ان کے مقصود معماملے کو سلجھا نا ہمارے نزدیک مسلک کی وفاداری۔ اور سب سے بڑھ کہ وہ اپنے آپ کو دین کا ٹھیکے دار اور محافظ نہی بلکے ادنی طالب علم سمجھتے تھے۔ ہمارے ہاں ہر دوسرا بھنگی، چرسی چار حوروں کا بیان سن کر۔ نکل پڑتا ہے دنیا فتح کرنے۔
دنیا کی مسلمہ حقیقتوں میں سے ایک بڑی حقیقت اختلاف ہے۔ اس کے ناپید ہونے کی سب سے بڑی وجہ کہ ہم اپنی درس گاہوں میں، گھروں میں اور مجالس میں اختلاف کی اہمیت اور علمی اختلاف کے طریقہ کار کو نصاب اور زہنوں سے نکال پھینکے ہوۓ ہیں۔ ہم اصول مناظرہ پڑھاتے ہیں نا کہ اصول اختلاف۔ صبر، تحمل، برداشت ہمارے لیۓ نا آشنا الفاظ ہیں۔
اختلاف جزوی ہو یا قلی ہم تمام چیزوں سے ماورا ہوکے اختلاف کو شخصی اور مسالکی بنیادوں پر لیۓ پھرتے ہیں۔ اس پر ستم ظریفی دیکھۓ کہ ہم امت کو جوڑنے اور ایک پلیٹ فارم پر لانے کی باتیں کرتے ہیں
اگر ایسا ہی رہا تو وہ وقت دور نہی جب ہر گھر میں سے فرقے اور مفتی برامد ہونگے۔ اور کفر کفر کی جنگ مدراس سے ہر گلی اور چوراہے پہ آ جائے گی۔ اس لئے بجائے کسی کو فتنہ قرار دے کر خود سے اسکے محاسن طے کرنے کہ خدارا علمی طریق پہ غطیوں کو احترام اور دلائل کی بنیاد پہ واضح کریں۔ بجائے اسکے کہ اپنے آپ کو صیح اور دین کا واحد ٹھیکدار مان کہ دوسروں کا راستہ روکنے کی بجائے ہر کسی کو دین کا مخلص سمجھ کہ اسکی غلطی کو واضح کریں۔
آخر میں ایک واقعہ سنا کہ بات کو ختم کردیتا ہوں۔ میری ایک دوست سے بات ہو رہی تو وہ اپنے مسلک کے دفاع میں فرمانے لگے کہ ہمارے مفتی کرام کھلے دل سے اپنے شاگردوں کو سب علماء کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ مثال میں انہوں نے ایک درس کی مثال دی کہ انکے ایک مفتی نے مولانا امین احسن اصلاحی کے بارے میں فرمایا تھا کہ پارہ نمبر فلاں سے فلاں تک وہ ٹھیک ہیں اور فلاں پہ وہ غلط ہیں۔۔
اچھی بات تھی لیکن میرے دل میں آیا کہ اگر وہ یہ فرما دیتے تو کتنا اچھا ہوتا کہ مجھے اصلاحی صاحب کی فلاں فلاں جگہ کی تفسیر سے اختلاف جبکہ فلاں فلاں سے میں متفق ہوں۔ تو کتنا اچھا ہوا۔ انکی اس بات سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ کرکے بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ صیح ہیں اور اصلاحی صاحب غلط ہیں تو اب خود ہی بتائیں کیا انکے شاگردوں کے لئے تحقیق کے دروازے کھلیں گے؟