عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی مزاحیہ رومانوی فلم رانگ نمبر ٹو ہدایت کار یاسر نواز کی تیسری فلم ہے۔ یاسر نواز اس سے قبل ‘رانگ نمبرون’ اور ‘مہرالنسا وی لب یو’ بھی بنا چکے ہیں۔ یہاں یہ زکر کرنا ضروری ہے کہ رانگ نمبر ٹو کا رانگ نمبر ون کی کہانی سے کوئی تعلق نہیں بے بلکہ بقول یاسر نواز کے یہ ایک فرنچائز ہے جس کے تحت مختلف فلمیں بنتی رہیں گیں اور جن میں کہانی کرداروں کی غلط فہمیوں اور بیوقوفیوں کے گرد گھومتی رہے گی۔
رانگ نمبر ٹو کا پلاٹ ماضی قریب میں ریلیز ہونے والی کئی پاکستانی فلموں سے ملتا جلتا ہے یعنی ایک ںوجوان لڑکے اور لڑکی محبت، ظالم باپ اور پھر بغاوت یا بھاگ کر شادی کرنا۔
رانگ نمبڑ ٹو کے مرکزی کردار ایک نوجوان لڑکی زویا (نیلم منیر)، ایک نوجوان لڑکا عمر (سمیع خان) جو ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ زویا کا باپ گل نواز (جاوید شیخ) جو ایک ارب پتی شخص ہے اور اپنی بیٹی کی شادی ایک با اثر چوہدری (شفقت چیمہ) کے اکلوتے بیٹے ہیپی (احمد حسن) سے کرنا چاہتا ہے۔ گل نواز سیاست میں آکر ہر قیمت پر الیکشن جیتنا چاہتا ہے جس کے لیے وہ وزیرعلی (محمود اسلم ) کو اپنا پرسنل سیکریٹری رکھتا ہے جو اتفاق سے عمر کا باپ ہے۔ ادھر محبوب (یاسر نواز) ایک مڈل کلاس شخص ہے جو اپنی سادہ لوح بیوی معصومہ (ثنا فخر) اور ایک بیٹی کے ساتھ رہتا ہے اور ایک معمولی سی نوکری کرتا ہے۔ فلم میں دانش نواز کا کردار بھی ہمیشہ کی طرح انتہائی پرمزاح ہے جبکہ اشرف خان، عرفان کھوسٹ اور فریحہ جبین بھی مختصر مگر اہم کرداروں میں موجود ہیں۔ بس انہی کرداروں کے گرد فلم کی کہانی گھومتی ہے اور دلچسپ غلط فہمیوں (جنہیں شاید رانگ نمبر کہا گیا ہے) کے باعث گڈ مڈ اور الجھن کا شکارہے۔
رانگ نمبر ٹو میں کہانی کے پیچ وخم مضبوط ہیں اور مکالمے بے ساختہ ہیں۔ مزاح گوکہ انتہائی عامیانہ ہے لیکن ان کی ادائیگی اور ان پر اداکاری بالکل فطری ہے جو آپ کو ہنسنے پر مجبور کردیتی ہے۔ فلم میں کئی مواقعوں پر جب جاوید شیخ اور ثنا فخر آمنے سامنے آتے ہیں تو ماضی کی ایک دھن بجائی جاتی ہے جو لالی وڈ فلم انڈسٹری کو جاننے والوں کےلیے دلچسپی کا باعث ہے۔
رانگ نمبڑ ٹو میں اداکاری کے سب زیادہ نمبر جاوید شیخ اور محمود اسلم کو ملنے چاہئیں جن کی کیمسٹری فلم کی کہانی کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ یاسر نواز کا بھی فلم ایک اہم کردارہے اور لگتا ہے کہ وہ ابھی بھی ایکٹنگ کرنا بھولے نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ یاسر نواز نے اس فیلڈ میں اداکاری ہی سے قدم رکھا تھا۔ ثنا فخر جب بھی اسکرین پر آئیں اچھی لگیں۔ البتہ نیلم منیر اور سمیع خان کو نسبتا کم اسکرین ٹائم دیا گیا۔ نیلم منیر کی شخصیت اور چہرہ فلموں کے لیے بہترین ہیں لیکن ان کی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال نہیں کیا گیا اورنہ ہی ان سے اچھا ڈانسں کروایا گیا۔ مگر اس کے باوجود ان کے خوبصورت چہرے اورنیچرل اداکاری نے سب کچھ سنبھال لیا۔ سمیع خان سے بھی پوری طرح کام نہیں لیا گیا۔ سمیع خان کا شمار ڈائریکٹر ایکٹر میں ہوتا۔ ڈائریکٹر چاہے تو ان سے بہترین کام لے کر ان کے کرداروں کو امر بنا سکتا۔ شاید یاسر نواز کہانی میں اتنا زیادہ محو ہو گئے تھے کہ تمام کرداروں پر توجہ نہیں دے پائے۔ اور یہ بات واقعی سچ ہے کہ رانگ نمبر ٹو کی اصل کامیابی اس کی کہانی ہی ہے۔
فلم کی سینماٹوگرافی کافی اچھی ہے، خاص طور پر کچھ لانگ شاٹس تو یقینا لائق تحسین ہیں۔ کلر گریڈنگ فلم کے اعتبار مناسب ہے۔ فلم میں کل پانچ گانے ہیں جن میں گلی گلی، یشما گل پر فلمایا گیا ایک ڈانس نمبر ہے۔ موسیقی اچھی ہے لیکن کوئی بھی گانا ایسا نہیں ہے جو سینما سے نکلنے کے بعد آپ کو یاد رہ جائے۔
یاسر نوازکی اب تک ریلیز ہوئی فلموں کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یاسر فلم اور ٹیلی ویژن کا فرق بہ خوبی جانتے ہیں، ورنہ اکثر ہمارے ٹی وی ڈائریکٹر کی فلمیں ایک ٹی وی ڈدرامہ ہی محوس ہوتی ہیں۔ اگر ریٹنگ کی جائے تو رانگ نمبر ٹو اہنی صنف میں بنائی گئی فلموں میں ایک بہتر شمار کی جائے گی۔