سماج ایک نامیاتی یعنی زندہ اگائی ہے ، متحرک ، ترقی پسند اور انسان دوست سماج ہوگا تو اس کا اظہار سماجی ، سیاسی ، معاشی اور انسانی زندگی کے ہر شعبے میں ہوگا کیونکہ ایسا سماج پیداواری تخلیق اور اختراعی مزاج کے حامل افراد سے تشکیل پاتا ہے۔
سماج جمود کاشکار، رجعت پسند اور انسان دشمن ہوگا تو اس کا اظہار بھی اسی طرح ہوگا۔ ہمارا سماج چند ایک پہلوئوں کو چھوڑ کر دوسری کیٹاگری میں آتا ہے اور اس کا اظہار بھی سماجی زندگی کے ہر شعبے میں ہو رہا ہے۔
پاکستان کا میڈیا بھی سماجی اضمحلال کے تمام عناصر خبیثہ کا حامل ہے۔ میڈیا کا اصولی فریضہ غیر جانبدارانہ انداز میں خبر کی ترسیل بھی ہے اور رائے سازی کے حوالے سے خبر کا تنقیدی جائزہ لینا بھی ہی۔
دونوں ہی شعبوں میں معروضی رویے مفقود ہیں۔ خبر میں خواہش کا پہلو اور تجزیے میں تاثر اور تعصب کی عینک کارفرما رہتی ہے۔ مدیران ، مالکان کی ہمدردیوں کا تناظر ادارتی پالیسی میں گھساتے ہیں تو مالکان مفادات کی مقناطیسیت کے تحت اپنا رخ بدلتے ہیں۔ جمہوریت، آمریت، لبرلزم ، سیکولرزم ، رجعت پسندی اور دہشت گردی پر میڈیا مالکان اور مدیران خیالات کی کلیریٹی سے محروم ہیں۔
عمی بنیادیں ریت کی دیواریں ہیں یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی کوئی کالم نگار علمی نقطے پر مباحثے کا آغاز کرتا ہے تو کالم کے درمیان تک پہنچتے پہنچتے ریتلی دیوار گر جاتی ہے اور غیر علمی پہلو درآتے ہیں، یوں کالم کا حقیقی نتیجہ مبنی بر جہالت سامنے آتا ہے۔
میزبانان علمی، تحقیقی و تاریخی موضوعات سے پروگرام کا آغاز کرتے ہیں ، تمہید انہی موضوعات کی باندھی جاتی ہے مگر جب مباحثہ آغاز ہوتا ہے تو بات کہیں سے کہیں جا نکلتی ہے، کہیں عقیدہ در آتا ہے تو کہیں عقیدت علمی تحقیق کا گلہ گھونٹ دیتی ہے۔
مہمانوں کا انتخاب یہ سوچ کر کم ہی کیا جاتا ہے کہ ان موضوعات پر سند کون ہیں، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ منتخب مہمان قابل فروخت ہے کہ نہیں۔ تند زبان کے حامل مصنفین، سیاسی رہنما اور مبصرین کو بآسانی قابل فروخت مہمانوں کی کیٹاگری میں رکھا جا سکتا ہے۔
چینل کے نیوز ڈائریکٹر عموما پیشہ ور ہوتے ہیں مگر پیشہ وارانہ دیانت کی بنیاد کا پتھر مالکان کے مفادات ہوتے ہیں۔ پروگرامز کے ڈائریکٹر انتاہئی طور پر غیر موزوں افراد ہیں، جو خود کلیرٹی آف تھاٹس نہیں رکھتے تو اپنے پروگرامز کے ذریعے سے شفاف تصورات کی ترسیل کس طرح کر پائیں گے۔
میڈیا کا سب سے خطرناک پہلو میڈیا مالکان ہیں جو حرف کےایسے تاجر بن چکے ہیں جن کا حرمت حرف پرذرہ بھر ایقان نہیں ہے۔ اشتہارات کو اپنی تجارتی مہم کا نقطہ عروج ماننے والے مالکان مقصدیت سے کوئی لگائو نہیں رکھتے۔ میڈیا مالکان کی اکثریت خود کو بادشاہ گر سمجھنے کی روش رکھتی ہے۔ ان تجارتی مہم جوئوں کو کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ پاپولر آرا کی تبلیغ کے علاوہ وہ کچھ ایسا کر سکتے ہیں کہ جس سے غیر مقبول آرا کو مقبول کیا جا سکے۔ سرکاری بیانیہ آج بدل جائے تو ان کے کوششوں کا مرکز بھی نئے بیانیے کا اثبات ہو جائے گا۔
میڈیا کا ایک اور اہم سنگین مسئلہ خوفزدگی ہے۔ نیوزروم میں حساس اداروں یا عوامی ردعمل اکسانے والے مسائل آجائیں تو مدیروں کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں، دھڑا دھڑ مالکان کو فیکس بھیجنے شروع ہو جاتے ہیں۔ سرخی، ذیلی سرخیوں کا کاما،شوشا تک مالکان سے شئیر کیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ برقی میڈیا کا بھی ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ نائب مدیران و مددگار پروڈیوسران کا ہے۔ ان کی ساری پیشہ وارانہ کوششوں کا منبع و مرکز اپنے سینئیرز کی نظر التفات(عرف عام میں ٹی سی کرنا۔۔۔۔)کا حصول بن گیا ہے۔ جو اس بات کا عندیہ ہے کہ مدیران و پیش کاران کی اگلی نسل بھی اعلی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے محروم مالکان کی خوشنودی کی حدی خواں ہوں گی۔
بیرونی عوامل میں اول تو میڈیا مالکان کے مفادات ہیں، دوسرے نمبر پر ملک کے طاقتور ادارے ہیں جن کے ٹائوٹس کی ایک قابل لحاظ تعداد میڈیا میں چھوڑ دی جاتی ہے۔ ایسے ٹائوٹس کو عموما غیر پیداواری مگر بڑے عہدے دے دیے جاتے ہیں، جس سے وہ میڈیا کے ادارے کی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
یہ وہ بنیادی عوامل ہیں جو میڈیا کے حوالے سے رجائیت پسندوں کے سہانے خوابوں کی نفی کرتے ہیں۔ آئی ایس آئی کے معاملے میں جیو جنگ کا مسئلہ آیا تو میڈیا مالکان ، پریشر گروپس کے اشتراک سے جو اتحاد سامنے آیا وہ فطری ردعمل نہیں تھا بلکہ مینو فیکچرڈ تھا جس کا واضح ثبوت ایگزیکٹ سکینڈل کی صورت میں سامنے آیا جب مخالف میڈیا گروپ ایک فورم پر جمع ہو گئے۔ کسی بھی ادارے کی کوئی نظریاتی بنیاد اب نہیں رہی بلکہ صرف تجارتی مفاد واحد نظریہ رہ گیا ہے۔
اس تمام صورت حال کو سامنے رکھیں تو اظہار کی آزادی کا واحد موجود ادارہ مضمحل معلوم ہوتا ہے۔ اس ادارے کا احیا کیے بغیر متحرک سماج کے لیے ناگزیر تنقیدی شعور کی تخلیق ناممکن نظر آتی ہے۔