وہ آج یہ سوچ کے ظہر کے بعد طارق روڈ شاپنگ کیلئے گئی کہ افطاری سے پہلے واپس آ جائے گی ، بچوں کیلئے کچھ سوٹ لیتے لیتے اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ عصر کا ٹائم ہو گیا ۔ اس نے سوچا روزے سے ہوں نماز تو پڑھ لوں ، پر یہ خیال آتے ہی اسکے ذہن میں آیا کہ نماز پڑھوں گی کہاں ، شاید کسی مسجد میں خواتین کے نماز پرھنے کی بھی کوئی جگہ ہوگی ، یہ سوچ کر اس نے طارق سینٹر کے قریب مین مسجد کی طرف قدم بڑھا لئے ۔ مسجد کے دروازے پر پہنچ کر اس نے دائین بائیں دیکھا تو صرف مرد نماز ی ہی مسجد کی طرف آ رہے تھے ، اس نے جیسے ہی مسجد کے اندر داخل ہونے کیلئے قدم بڑھایا ، مسجد کے گارڈ نے اسے ٹوکا ۔۔ بی بی کہاں آ رہی ہیں ، عورتوں کیلئے جگہ نہیں ہے ۔ ۔۔۔۔۔بھائی نماز پڑھنی ہے ، میرا روزہ ہے ٹائم نکل جائے گا ۔ اللہ کا گھر ہے ، میں کسی کونے میں ایک طرف ہو کے نماز پڑھ لوں گی ۔۔۔۔ اس نے گارڈ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔ لیکن گارڈ نے اس کی ایک نہ سنی ، اور کہا کہ بی بی یہاں انتطامیہ نے عورتوں کا داخلہ منع کیا ہے ۔ آپ اندر نہیں جا سکتیں یہ سوچ کر اسکے بڑھتے قدم وہیں رک گئے اور وہ الٹے پاوں واپس لوٹی ۔
مسجد میں نماز نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہوئی ، او ر سوچنے لگی کہ اسے اس طرح اس وقت گھر سے نہیں نکلنا چاہئے تھا ۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں آیا ایک بار جب وہ عمرہ ادا کرنے کیلئے سعودی عرب گئی تھی ، تو زیارتیں کرتے ہوئے جہاں جہاں نماز کا ٹائم ہوتا تھا ۔ ہر مسجد میں انکے لئے الگ حصہ مخصوص ہوتا تھا ، جہاں وہ آرام سے نماز پرھتیں ، مسجد نبوی اور حرم پاک تک میں انکے لئے جگہ مخصوص ہوتی تھی ۔ لیکن آج اسے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان مین رمضان شریف میں روزے کی حالت میں ایسی کوئی جگہ نہیں سوجھ رہی تھی جہاں وہ اپنی نماز کو قضا ہونے سے بچا سکے ۔
اس ایک لمحے اس نے اپنے آپ کو بہت بے بس اور لا چار محسوس کیا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی رب کے حضور سجدہ ریز نہیں ہو سکتی ۔ اور وہ بے تحا شہ روئے گئی ۔۔۔۔اور سوچے گئی کہ اس نے تو دنیا گھومی ہے ، سعودی عرب ، ترکی ، ملائیشیا ، اور دبئی میں تو ہر شاپنگ مال اور ہر فلور پر خواتین کیلئے نماز پرھنے کی جگہ مخصوص ہے ۔ لیکن اگر نہیں ہے تو اسلام کے نام بننے والے ملک پاکستان میں نہیں ہے ۔ روزے کی حالت میں نماز قضا کرنے سے وہ ڈر گئی اور شاپنگ ادھوری چھوڑ کر گھر کی طرف بھاگی ۔ کہ گھر پہنچ کر نماز عصر ادا کرے ۔۔
نماز کی جگہ نہ ملنے پر آج اس نے پہلی بار ا س مسئلے پر سنجیدگی سے سوچا تو اسے معلوم ہوا کہ برصغیر پاک و ہند میں تو عورتوں کو ہمیشہ مسجدوں سے دور رکھا گیا ۔ عورتوں کے مسجد میں نماز پڑھنے کا کلچر ہی پروان نہیں چڑھ سکا ۔ آج جب عورتیں زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں کے مساوی بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ، گھر سے باہر نکل کر معیشت اور کاروبار میں ہاتھ بٹا رہی ہیں ، تو ان کے لئے نماز کی جگہ کیوں نہیں ہے ؟ یہی سوچ کر اس نے قرآن کا مطالعہ کیا اسے معلوم ہوا کہ قرٓن میں کہیں بھی مرد اور عورت کی صنفی علیحدگی کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ۔ اور اسے معلوم ہوا کہ قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ خواتین مسجد نہیں جا سکتیں ۔ بلکہ حدیث شریف میں یہ تک کہا گیا ہے کہ خواتین کو مسجد جانے سے مت روکیں ۔۔اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 228 میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ عورتوں اور مردوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں ۔ خدا کے گھر اور خدا کے دربار میں عبادت کا حق تو یکساں ہے ۔ عورتوں پہ مسجد میں جا کر نماز پڑھنا فرض اس لئے نہیں کیا گیا کہ ان کو گھر کی ذمہ داریاں انجام دینی ہوتی ہیں ، اگر فرض کیا جاتا تو انہیں مشکل ہو جاتی ۔ ان کی آسانی کا خیال کرتے ہوئے ان پر مسجد جانا فرض نہیں کیا گیا ۔ لیکن انہیں مسجد میں جانے سے روک تو کوئی نہیں سکتا ۔
یہ سوچ کر اس نے انٹر نیٹ اور دوسرے زارئع سے کراچی کا سروے کرنے کا تہیہ کیا کہ ایسی کون سی مساجد ہیں جہاں خواتین کو نما ز کیلئے الگ جگہ میسر ہے ۔
اسے معلوم ہوا کہ کراچی میں بوھری برادری کی تمام مساجد میں خواتین پانچوں وقت کی نمازیں مسجد میں آکر ادا کرتی ہیں ۔ شیعہ مکتبہ فکر کی بھی اکثر مساجد میں خواتین کیلئے جگہ ہوتی ہے ۔ جبکہ کراچی کی مندرجہ ذیل مساجد میں بھی خواتین کیلئے علیحدہ جگہ موجود ہے ۔
۔ عائشہ مسجد خیابان اتحاد کراچی
۔ مسجد سعد بن ابی وقاص فیز 4 ڈی ایچ اے کراچی
۔ قرآن اکیدمی مسجد سی ویو کراچی
۔ گلستان انیس آف شہید ملت روڈ ۔
۔ سدا بہار لان شہید ملت روڈ
۔ مسجد بیت السلام کمرشل ایونیو فیز 4 دی ایچ اے کراچی
۔تیموریہ مسجد حیدری ، بلاک ایچ نارتھ ناظم آباد
۔ مسجد نمرہ بلاک آئی نارتھ ناظم آباد
۔ مسجد قبا بلاک 13 سی گلشن اقبال کراچی
اسے حیرت ہوئی کہ گلشن اقبال میں واقع کراچی کی بڑی مسجد بیت المکرم کے اندر خواتین کے لئے علیحدہ سے کوئی ہال نہیں بنایا گیا ۔ بلکہ صرف لان میں ایک جالی لگا کر ایک صف جتنی جگہ مخصوص کی گئی ہے ۔
اسے معلوم ہوا کہ عورتوں کے مسجد میں جانے پر پابندی خود ساختہ تخلیق ہے اسلام نے ایسی کوئی پابندی نہی لگائی ۔ یہ چونکہ مردوں کا معاشرہ ہے تو یہاں تو نماز کیا ، عورتوں کی تعلیم پر پابندی ہے ، ، وراثت میں حقوق نہ دینےکی پابندی ہے ، ۔۔یہاں مرد عورت کی زبردستی شادی کرسکتا ہے ، جہیز کا مطالبہ کرکے اسے ساری عمر کنواری رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، اسکی مرضی کے بغیر اسکی بچہ کشی کرائی جاتی ہے ۔
اسلام میں تو ایسا کچھ نہیں ہے اسلام کی نظر میں تو سب برابر ہیں ۔ اور وہ سوچنے لگی کہ جس عورت کو پاکستان کا معاشرہ مسجد سے دور رکھتا ہے ، اس س ے یہ امید کیسے لگائی جا سکتی ہے کہ وہ مذھبی خطوط پر نسلوں کی آبیاری کا فریضہ انجام دے ۔