فرانس کا ماتم اور فلسطین کا نوحہ

پیرس حملے بعد دنیا نے اسلام کے خلاف اور مسلمانوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک طوفان بد تمیزی برپا کیا ہوا ہے۔ کوئی ایمان کی کمزوری کا رونا رو رہا ہے تو کوئی لبرلزم کے آوازے کس رہا ہے۔ کسی کو دین کو غلبہ دلانا ہے تو کوئی صرف دنیا میں امن و سکون چاہتا ہے۔ اس سارے شور میں کون صیح اور کون غلط ہے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔

اس سارے شور غل میں انسانیت کی چیخیں دب کہ رہ گئی ہیں۔ وہ چیخیں فلسطین سے اٹھیں یا فرانس سے، معصوم لوگوں کا خون بیت المقدس کی دیواروں کو رنگے یا پھر کسی کنسرٹ میں تھرکتے بدن اسکا نشانہ بنیں۔

جو بھی ہو، گرنے والی لاش اور بلند ہونے والی چیخ تو ایک گوشت پوست کے انسان ہی کی ہے۔ نوحے عربی میں پڑھے جائیں یا انگریزی میں۔ اجڑنے والے گھر تو انسان کے ہیں نا۔

مارنے والے اپنے آپ کو مجاہد کہلائیں یا فوجی، ہیں تو وہ بھی انسان ہی نا۔

اظہار یکجہتی کرنے والے ڈی پی فرانس کی لگائیں یا فلسطین کی، یکجہتی تو انسان کے ساتھ ہی ہے نا۔

مرنے والے مسلم ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے، ہے تو انسان ہی نا۔

لاشیں غیر مسلموں کی گریں تو کیا فرق پڑتا ہے مخلوق تو اسی اللہ کی ہے نا۔

صف ماتم کہیں بھی بچھے، سینہ کوئی بھی پیٹے، کیا اس سے ظالم مظلوم اور مظلوم ظالم بن جاتا ہے؟

پیرس والے فلسطین والوں سے اظہار یکجہتی کریں یا نہ کریں۔ تو کیا پھر بھی ظلم، ظلم نہی رہے گا؟

پھر کیوں، کیوں ہم نے ظلم کو مذہبیت اور وطنیت کے لبادے اوڑھا کہ چھپانا چاہا ؟

پھر کیوں ہمارے دل نے وہی سسکی نہی بھری جو اس نے پشاور کے معصوموں کو خون میں لت پت دیکھ کہ بھری؟

تب تو، تو رویا بھی تھا۔ گڑگڑایا بھی تھا۔ عزم نو بھی کیا تھا۔ اب کیا ہو گیا؟ کیا تیرا مذہب اور تیری انسانیت تجھے صرف یہ سکھاتی ہے؟

یاد رکھ وہ دن دور نہی جب یہ ظلم تیری دہلیز پہ آ بیٹھے گا۔ وہ دن دور نہی جب یہ ظلم تیرے گھر کو، تیرے مسلم، تیرے انسانیت کے علمبرداروں کو بھی نگل جائے گا۔

پھر تو، تیرے بچوں کی لاش پہ، تیرے ماں باپ کی لاش پہ بیٹھا ہوگا۔ پھر تو لوگوں کے منہ تکتا ہوگا کہ شائد کوئی تو میرے ساتھ ہوئے اس ظلم کی مذمت کرے۔ شائد کوئی تو دنیا کو بتائے کہ تیرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ تب کوئی تجھے گلے لگا کہ دلاسا دینے والا نہی ہوگا۔

سمجھ جا اس سے پہلے یہ دنیا تیرے اعمال کے سبب جہنم بن جائے۔ یہ جنگ جو کبھی امن کے نام پہ لڑی جاتی ہے اور کبھی اسلام کے نام، جس دن یہ تیرے گھر دستک دے گی۔ تو تیری سسکیاں تیرے گلے میں پھنس جائیں گی اور پھر کوئی تیرا دوست و مددگار نہ ہو گا۔

امن ہی وہ واحد حل ہے جس کے ذریعے کوئی انسانیت کی معراج کو پانا چاہے یا اسلام کا نفاذ چاہے، صرف اسی راہ پہ اب ممکن ہے۔ وہ دن چلے گئے جب تلواریں راج کیا کرتی تھیں اب نظام اور عمل راج کرے گا۔ جو قوم اس عمل اور محنت میں آگے ہوگی وہ راج کرے گی۔ اب اخلاقیات کے راج کا دور ہے۔

دنیا میں امن کے خواہاں بھی جنگوں سے جس امن کی آشا کو ڈھونڈنے نکلے ہیں وہ یہ شائد اس بھول میں ہیں کہ شائد راستے میں کانٹے بچھا کہ منزل تک پہنچ جائیں گے۔ اور بھولے مجاہد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ شائد انہی کانٹوں پہ قوت برداشت کے ساتھ چل کہ وہ بھی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ شائد انکے دین کو سرفرازی مل جائے اور دین کا دنیا میں بول بالا ہو جائے تو براہ کرم کھلی آنکھوں سے افغانستان کو مشاہدہ کرلیں۔

سوویت یونین نے ان کانٹوں کو بچھایا تھا۔ اور انہی کانٹوں پہ افغان مجاہد چلا۔ کیا ملا اسے؟
سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ لیکن کیا دنیا میں افغان مجاہد اسلام کا بول بالا کرسکا؟
امریکہ نے پنگا لیا۔۔ذلیل ہوا۔۔ کیا اب بھی افغان مجاہد نے اسلام کا بول بالا کردیا؟ کیا افغانستان میں کوئی ایسی اخلاقی قدریں فروغ پا گئی ہیں جو غیر معمولی ہوں؟
اگر ہاں، تو فرخندہ اور رخشندہ دونوں ہماری اس ہاں کا منہ چڑا رہی ہیں۔

اسکے برعکس جن اقوام نے وقت لگا کہ اس شدت پسندی اور اقربا پروری کا ڈنگ ہمیشہ کے لئے نکال کہ صیح اخلاقی قدروں کو جگہ دی وہ ممالک آج دنیا میں راج کر رہے ہیں۔ اور ہم اب بھی اس انتظار میں بیٹھے ہیں شائد فرشتے اتریں، شائد کوئی آئے۔ تو اللہ کا فیصلہ ہے کہ جو اپنی حالت بدلنا نہی چاہتے اللہ بھی انکی حالت کو بدلا نہی کرتے اور یہی حق ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے