ہائر می پلیز !!!

حسب معمول فیسبک کی پوسٹ گردانی جاری تھی کہ یکا یک نظریں ایک تصویر پر ٹھہر گئیں ،،، لکھا تھا ” خدا انکی مدد کرتا ہے جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں ” یہ ایک پوسٹر تھا جو کہ کسی دیوار پر چسپاں تھا اور اسکی تصویر بنا کر فیسبک پر اپلوڈ کی گئی تھی ،، مجھے مزید تجسس پیدا ہوا لہٰذا میں نے اس پوسٹرکو پڑھنا شروع کر دیا … کسی نوجوان نے لکھا تھا میں نے نسٹ یونیورسٹی (NUST) سے ایم ایس الیکٹریکل اور بیچلر ٹیلی کام انجینرنگ میں کیا ہے اگر کسی کے پاس جاب ہے تو اس نمبر پر مجھ سے رابطہ کریں ،،،،

شاید بہت سے افراد کے لئے یہ ایک معمولی بات ہوگی مگر مجھے تو اس قوم کی قسمت پر ماتم کرنے کا جی کر رہا تھا … یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اگر نسٹ جیسے مثالی تعلیمی ادارے کے طلبہ اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ وہ اس قسم کا اشتہارات چھاپ کر دیواروں پر چسپاں کر رہے ہیں تو پھر ملک کےباقی ماندہ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی حالت زار کیا ہوگی اسکا اندازہ قارئین بخوبی لگا سکتے ہیں .
کہتے ہیں نوجوان کسی بھی قوم کی خوش حالی اور ترقی کی ضمانت ہوتے ہیں اگر یہ بات درست ہے جو کہ یقینا درست ہے تو پھر ہم بحثیت معاشرہ اور قوم نوجوانوں کو کیا دے رہے ہیں ؟؟؟؟

یہ سوال ایوان اقتدار کے یخ بستہ کمروں میں بیٹھے عوامی نمائندوں سے کیا جانا چاہیے ، کہنے کو تو وہ عوامی نمائندے ہیں مگر شہر خموشاں کے باسی بننے کے بعد شاید انکی یاداشت کم ہوجاتی ہے یا پھر وہ اس قوم کے حقیقی مسائل جاننا ہی نہیں چاہتے ،،،
کسی زمانے میں سیانے کہا کرتے تھے پڑھ لکھ لو کچھ بن جاؤ گے لیکن اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پڑھے لکھے نوجوان جرائم کی طرف مائل ہو رہے ہیں .
جب ایک گریجویٹ یونیورسٹی سے ڈگری لے کر نکلتا ہے تو اسکی آنکھوں میں حسین خوابوں کی ایک جنت ہوتی ہے، آنے والی زندگی کے متعلق اس نے جانے کیا کچھ سوچ رکھا ہوتا ہے مگر جب وہ عملی زندگی کے میدان میں اترتا ہے تو کبھی سفارش کبھی میریٹ اور کبھی تجربہ نہ ہونے جیسی توجیہات پیش کر کے اسے بے رحم معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے .وقت کی بے رحم موجوں پر کچھ تو تیرنا سیکھ جائیں گے مگر جو ڈوب جائیں گے انکا حساب کون دے گا !!!!

مناسب پلاننگ اور تھنک ٹینکس وقت کی ضرورت ہیں ، نظام کو ایڈھاک ازم پر چلانے کے بجاے پالیسی سازی کے عمل کو تیز تر کرنا ہوگا اور اس قوم کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہنر اور ٹیلنٹ سے استفادہ کرنا ہوگا ، یقین مانیں یہ نوجوان کسی بھی لحاظ سے مغرب کی ترقی یافتہ قوموں کے نوجوانوں سے کم نہیں مگر ان کو موقع تو دیں پھر یہاں سے عرفہ کریم جیسی ملت کی قابل فخر بیٹیاں پیدا ہونگی ،

اقبال کا یہ شعر ہمیشہ میری امید بڑھتا ہے

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

لکھنے کو بہت سے موضوعات ہیں جن پر صفحات کالے کیے جا سکتے ہیں مگر میری نظر میں افتخار طاہری جیسے لوگوں کے بارے میں لکھنا "ٹاپ سٹوری "ہے ، مجھے اس سے فرق نہیں پڑھتا کہ لوگ اس تحریر کو کس قدر پذیرائی بخشتے ہیں مگر میں مطمئن ہوں کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا ، کاش صاحبان اختیار بھی اسکو اپنا فرض سمجھیں تو یہ ملک اقبال کے خوابوں کی تعبیر بن جاۓ اور جانے کتنے افتخار اس قوم کا افتخار بن جائیں .

شاید وہ دن بھی آجاۓ جب نوجوانوں کی جگہ ریاست اشتہارات لگاۓ، جانے کتنے نوجوان "ہائر می پلیز” لکھ کر اپنے سسکتے خوابوں کی تعبیر کے متلاشی ہیں ، مگر یہ خواب شرمندہ تعبیر کب ہونگے ؟ مجھے اسکا شدت سے انتظار ہے ،،،،،،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے