خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

بچپن میں ہم نے سنا تھا کہ اگر جمعرات کو بارش ہوجائے تو ایک ہفتہ تک مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے،جسے عرف عام میں ”جھڑی“ کہتے ہیں،

اگر فلمی نغمے اٹھا کر دیکھیں تو ساون کی جھڑی کے متعلق بے شمار نغمے سننے کو ملیں گے،اور جب دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو یار لوگوں کے دلوں میں چھپی چنگاری پھربھڑک اٹھتی ہے،

ہماری قوم کے لیے بھی دسمبر ایک کربناک مہینہ ثابت ہواہے،ابھی سقوط ڈھاکہ سانحہ کا بوچھ ہلکا نہ ہوا تھاکہ گزشتہ سال ظالموں اور درندوں نے ہنستے کھلتے چھوٹے چھوٹے پھولوں کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بے رحمی سے مسل ڈالا تھا،

پاکستان میں جاری دہشت گردی کا پہلا واقعہ بھی شایدساون کی کسی جمعرات کو ہواتھا،خون کی بارش ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی،کتنے معصوم شہری ہیں کہ جو اس خون میں نہاچکے ہیں،اب پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس نے کس کو مارا؟

نہ قاتل کو خبر ہے کہ کیوں قتل کررہاہے اور نہ ہی مقتول کو معلوم کہ کس جرم کی سزاپارہاہے،قوم کے لیے المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران بھی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے دہشت گردوں سے سمجھوتہ کربیٹھتے ہیں،

امریکہ میں ایک نائن الیون ہواتھا جو اس کی تاریخ کا آخری نائن الیون ثابت ہوا اس نائن الیون کے بعد پاکستان میں کئی نائن الیون ہوچکے ہیں،

فرانس میں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا تو اس پر پوری دنیا بلاتفریق مسلم و غیرمسلم چیخ اٹھی،ماحولیاتی کانفرنس کے نام پر پوری دنیاکے حکمرانوں کو فرانس میں جمع کرلیا گیا،

پاکستان میں آئے روز دہشت گردی کی واقعات ہوتے ہیں،دہشت گردوں نے نہ عوام کو بخشا ہے اور نہ ہی خواص کو،نہ مساجد محفوظ ہیں اور نہ اقلیتوں کے عبادت خانے،ایک طرف نامور علماء کرام کو نشانہ بنایا جارہاہے دوسری طرف بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں کا قتل عام ہے،عورتیں محفوظ ہیں نہ بچے،بہتی خون کی ندی میں ہرفرقہ ہرجماعت دوسرو ں کی ناؤکے ڈوب جانے کے انتظارمیں خاموش تماشائی بناہے،

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انسان کو محترم قراردیا ہے،سب انسان اولاد آدم ہیں،سب آپس میں بھائی بھائی ہیں،جس میں مسلم کافر کی تفریق بھی نہیں کی،اسلامی اخوت کا ذکر بھی بعد میں آیا،تو کیوں آج علوم وارثان انبیاء کی مسندیں خاموش ہیں،کیوں اگر مگر کی تاویلیں پیش کی جارہی ہیں۔

16دسمبر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قراردیا جاتاہے،آج بھی پوری قوم بشمول حکمران اس کو محض بیانات کی حد سنجیدہ لیتے ہیں،سقوط ڈھاکہ کے لیے جو عوامل اس وقت تھے وہی عوامل اب بھی بلوچستان کے لیے سرچڑھ کربول رہے ہیں،

شیخ مجیب الرحمن کو بھی دشمن اور غدارقراردیا گیا تھا آج بلوچ رہنماؤں کو بھی غدار قراردیا جارہاہے،انہی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک دشمن قوتوں نے بنگلہ دیشن کو الگ ریاست بنادیا،آج بھی بلوچستان میں ملک دشمن قوتیں اپنا گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے،

بھارت افغانستان اور ایران کے ایجنٹ بلوچستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں سقوط ڈھاکہ کی طرح اس وقت بھی ہمارے حکمران سب اچھا کا راگ الاپ کر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،بیماری کا علم ہوتے ہوئے بھی ہم مرض کی تشخیص نہیں کرپارہے،

کرپشن و بدیانتی اس قدر سرایت کرچکی ہے کہ اس وقت لوگ پاکستان چھوڑ کر بنگلہ دیش میں اپنا کاروبارزندگی بڑھانا چاہتے ہیں،جس دو قومی نظریہ پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی وہ نظریہ سقوط ڈھاکہ کے ساتھ دم توڑ گیا تھا،

سقوط ڈھاکہ کے وقت اندراگاندھی نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ یہ فتح جوہمیں حاصل ہوئی ہے یہ فتح ہماری افواج کی فتح نہیں ہے،بلکہ ہمارے نظریہ کی فتح ہے،ہم نے ان پاکستانی مسلمانوں سے کہاتھا کہ ان کا نظریہ باطل ہے،اورہمارا نظریہ برحق ہے،لیکن وہ نہ مانے اور ہم نے ثابت کردیا کہ ان کا نظریہ باطل تھا اورہم نے ان کے نظریے کو بحرہند میں غرق کردیا ہے۔

دشمن ہمیں نت نئے طریقوں سے شکست دے رہاہے اورہم مومن ہیں کہ باربار اسی دشمن سے ڈسے جارہے ہیں،وطن عزیز دن بہ دن کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہاہے،سیاسی جماعتیں باہم دست و گریباں ہیں،آج تک کوئی عوامی حکومت اپنی مدت حکمرانی پوری نہ کرسکی،اگر پیپلز پارٹی نے مدت پوری کی، جب گئے تو خزانے خالی تھے،

کیا پاکستان کے علاوہ بھی کوئی ملک ایسا ہے جہاں حکومت بننے کے بعد بھی پانچ سالہ مدت مقررہ کے دوران الیکشن ہی الیکشن ہوتے دکھائی دیتے ہیں،الیکشن کے دوران چلائی جانے والی شاہانہ کمپئین کو دیکھ کر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ امیدوار اس قوم کا نمائندہ بننے جارہاہے جس کا پیداہونے والا بچہ بھی مقروض ہوتاہے،

وطن عزیز کو مستحکم اور مضبوط بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کاطاقت ور ہونا ضروری ہے،سیاسی رہنماؤں کے غیردانشمندانہ اقدام کے سبب جب بھی سول حکومت وجود میں آتی ہے تو آمر کے حق میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہے،کیوں کہ سول حکومت اپنا فرض منصبی کی پوری طرح ادائیگی نہیں کرپاتی،ملکی مفادات کے بجائے ذاتی اورجماعتی مفادات کو مدنظر رکھا جاتاہے،

حکمرانی پر فائز ہونے کے بعد ذاتی کاروبار تو اوج ثریا کو چھورہاہوتا ہے جب کہ عوام ٹیکسز اور ملک مزید قرضوں تلے دباہوتاہے۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک بار پھر16دسمبر2014ء قوم پر آزمائش بن کر آیا، پشاورمیں آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کو قطارمیں کھڑاکرکے ایک ایک کے سینے اور پیشانی پر گولیاں ماری جارہی تھی ان گولیوں کانشانہ وہ معصوم بچے نہیں تھے بلکہ قوم کی غیرت و حمیت اوربزدلی کو ٹارگٹ کیا جارہاتھا،ہمارے حکمران جس قدرخواب غفلت میں ڈوب چکے تھے،شاید ان کو بیدار کرنے کے لیے اتنا بڑا سانحہ کا ہونا ضروری تھا،ملک کے محافظوں نے جو بزدلی کی چادر اوڑھ رکھی تھی شاید اس کو اتارنے کے لیے معصوم بچوں کی قربانی لازم قراردی جاچکی تھی،سو قربانی دی جاچکی،اپناروشن مستقبل قوم کے لیے قربان کیاجاچکا۔

شکرکہ حکمران بھی جاگ اٹھے،محافظ بھی حرکت میں آگئے،پوری قوم ایک پیج پر جمع ہے،سفاک قاتل کسی رعایت کے مستحق نہیں،جب تک قاتلوں کو نشان عبرت نہ بنایا جائے تب تک چین سکون سے نہیں بیٹھیں گے،16دسمبر 2015ء آنے کو ہے،قیامت گزرنے کوایک سال بیت چکا،قاتل پکڑے جاچکے ہیں،سرپرستوں کا قلع قمع ہوچکا ہے،موت کے پروانے پر آخری دستخط بھی ہوچکے،بہت جلد ان معصوم روحوں کو تسکین ملنے والی ہے۔وطن عزیز میں امن کے لیے ملک گیر آپریشن جاری ہے،امن کا بول بالاہوتادکھائی دے رہاہے،امن کے قیام کے لیے دینی،سیاسی اورعسکری قیادت ایک پیج پر ہے،بیرونی قوتوں کا گھیراتنگ ہوچکا،دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملائے جارہے ہیں،بہت سے افراد پابند سلاسل ہیں،محب وطن اوردشمنان وطن کی تفریق کی جارہی ہے،اسلام کے لبادے میں دہشت گردی کرنے والوں کو بے نقاب کیا جارہاہے،

اس وقت ضرورت ہے قومی یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کی،علماء کرام اور مذہبی نیٹ ورک کو عوام میں اس قدر پزیرائی حاصل ہے کہ وہ کسی اورشعبہ کے افراد کو شاید میسر نہ ہو،گاوں کی مسجد سے لے کر پارلیمنٹ کی مسجد تک علماء کرام کا نیٹ ورک موجود ہے،اس وقت علماء کرام کے لیے سب سے بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کا مسخ ہوتا چہرہ بچائیں،اپنی ذات پات سے نکل کر ملک و قوم اورمعاشرہ کے لیے قربانی دیں،اسلام امن و آشتی کا دین ہے،اسلام میں تحفظ ہے،مسلمان کا نہیں بلکہ انسان کا،اور اس سے بڑھ کر چرندو پرند کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے،

حضور ﷺمدینہ تشریف لاتے ہیں،یہود کے تین قبائل سے معاہدہ طے پاتا ہے کہ ہم سب مل کر رہیں گے،اکٹھے رہیں گے،ایک جسم کی مانند بن کررہیں گے،اگر کوئی باہر سے حملہ آور ہوگا تو ہم مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔

ہاں!اس وقت کے غیرمسلم کو مسلمانوں پر اس قدر یقین تھا،کفار سے جنگ لڑی جارہی ہے،مسلمانوں نے علاقے کا محاصرہ کیا ہوا ہے،کامیابی نہیں مل رہی،کہ اچانک شہر کے دروازے کھل گئے،آمدورفت شروع ہوگئی،مسلمانوں نے حال دریافت کیا تو پتہ چلا کہ اب ان لوگوں کو کوئی ڈر نہیں،کیوں کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی صلح ہوچکی ہے،اور شرائط طے پاچکی ہے کہ اب امن سے رہیں گے،کوئی جنگ نہیں ہوگی،

مسلمان یہ سن کرحیران رہ گئے کہ مسلمان لشکر کے سربراہ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے کفار کے حاکم کو طلب کیا،کہ فوج و لشکر کا سربراہ میں ہوں،میں نے کوئی صلح نہیں کی،اوریہ کیسے ہوسکتا ہے کہ صلح نامہ لکھا جائے اور مجھے اس کی خبر تک نہ ہو؟تم نے کس سے صلح کی ہے؟اور صلح نامہ کہاں ہے؟؟جب صلح نامہ سامنے آیا تو معلوم ہواکہ مسلمان غلام نے شہر والوں کو امن کا رقعہ لکھ کر دیا ہے،

معاملہ حضرت عمر ؓ تک پہنچا تو فرمایا: یہ شہروالے ٹھیک کہتے ہیں جس کو ایک مسلم غلام نے امان دی گویا ان کو سب مسلمانوں نے امان دی ہے۔

ایک مرتبہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ صدیقہ کے پاس تشریف لے گئے پوچھا عائشہؓ مجھے حضورﷺ کا کوئی ایسا عمل بتاؤ جو میں بھی کروں؟سیدہ عائشہؓ نے کہاکہ اورتو مجھے ایسا کوئی عمل نہیں یاد لیکن حضورﷺ میرے ساتھ مل کرسرید بنایا کرتے تھے اوروہ لے کر اس پہاڑی راستے پر جاتے تھے،حضرت ابوبکرؓ نے بھی سرید بنائی اور اسی راستے چل دیئے،ایک غار میں ایک آدمی لیٹاہواتھاجو لنگڑا،لولا اور کوڑ لگا تھا،آپ ؓ نے وہ سرید اس کے منہ میں ڈالی تو اس نے باہر تھوک دیااورپوچھا کہ کیا یہ وہ پہلے والی نہیں ہے،اوروہ آدمی کہاں ہے؟وہ تو اپنے منہ سے چباکر اپنی زبان سے میرے منہ میں ڈالتاتھا جو سیدھی میرے پیٹ میں چلی جاتی تھی،

حضرت ابوبکرؓ نے فرمایاوہ تو اس دنیا سے چلے گئے ہیں،وہ کون تھے؟فرمایا: مسلمانوں کے نبی محمد ﷺ تھے،یہ سن کر وہ تڑپ گیا اورکہاکہ یہ محمدﷺ تھے میں تو ساری زندگی ان کو تکلیف پہنچاتارہاہوں میں یہودی ہوں۔

کیا ایسے واقعات کے بعد بھی اسلامی ریاست میں قتل و قتال کی کوئی گنجائش باقی بچتی ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے